آخر زمانے میں مرجعیت کی اہمیت اور اس کے خلاف سازشیں

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ آخر زمانے میں اللہ علم کو دنیا سے اٹھا لے گا۔
سوال ہوا: فرزندِ رسول ﷺ! خدا علم کو دنیا سے کیسے اٹھا لے گا؟
آپ نے فرمایا:
"آخر زمانے میں علماء کی موت کثرت سے ہوگی، اور عالم کا چلا جانا صرف ایک عالم کا جانا نہیں ہے بلکہ علم کا چلا جانا ہے۔ اور عالم سے دشمنی رکھنا صرف عالم سے دشمنی نہیں ہے بلکہ علم سے دشمنی ہے۔"
اگر ہم آج مشاہدہ کریں تو مرجعیت کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں، اور آج کے نوجوان جو مرجع کے خلاف ہو رہے ہیں، اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہو سکتی ہے؟
آج کے نوجوان جنھیں الف اور با بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے، وہ اتنے ہشیار اور قابل ہوگئے ہیں کہ اپنے بزرگوں کا ہی عقیدہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ وہی عقیدہ جس پر ان کے بزرگ اس دنیا سے رخصت ہوئے، آج انہی کے لیے وبالِ جان بنا ہوا ہے۔ اور وہ مراجعِ کرام پر الزام لگا رہے ہیں کہ یہ ہمیں اصل عقیدہ سے گمراہ کر رہے ہیں۔
اللہ اکبر! خدا کی قسم، جس قوم کا فخر، جس قوم کا ناز، جس قوم کی عزت مراجعِ کرام ہوں، جس قوم کے پاس ایسا نائبِ امام ہو—جہاں دوسری قوموں کے پاس ایسا امام بھی میسر نہ ہو—آج اسی نائبِ امام کی توہین کی جارہی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اگر آج مذہبِ تشیع کی شناخت باقی ہے، یا یوں کہیے کہ اگر آج مذہبِ تشیع سربلند ہے، تو یہ سب انھی مراجعِ کرام کی وجہ سے ہے۔ ورنہ دشمنانِ اسلام تو مذہبِ تشیع کو بالکل ختم کرنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ مگر ہر زمانے میں ہمارے علماء نے اس مذہب کی حفاظت میں بہترین کردار ادا کیا۔
بہت دن ہوئے نہیں جب امام خمینی علیہ الرحمہ نے ایران میں انقلاب برپا کرکے تشیع کو بچایا۔ بلکہ صرف بچایا ہی نہیں بلکہ اسے ایک بلند مقام پر لا کھڑا کیا۔
اگر ہم حال کا جائزہ لیں تو ہماری قوم کا بچہ بچہ اس بات کا گواہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقتیں—امریکہ اور اسرائیل جیسی ظالم و جابر حکومتیں—اگر کسی سے ٹکرا سکتی ہیں اور اگر کوئی ان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کر سکتا ہے تو وہ ہمارے مراجعِ کرام اور ہمارے علماء کرام ہی ہیں، جنہوں نے ظالم حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ان مراجع کے خلاف اپنی ہی قوم کے کچھ لوگ ہوگئے ہیں اور مراجعِ کرام کی توہین کرنے سے بھی نہیں چوکتے؟ یقیناً یہ علم و معرفت کی کمی اور دنیا کی لالچ ہے جس نے ان کے عقیدے کو کمزور کر دیا ہے۔ یہی دو خرابیاں قومِ یہود میں بھی تھیں: ان کی نیت بھی ٹھیک تھی، عمل بھی درست تھا، مگر معرفتِ رسول نہیں تھی اور اقتدار کی ہوس تھی جس نے انھیں اصل دین سے دور کردیا۔
اب اگر منتظرینِ امام (ع) کا عمل درست ہے اور نیت بھی صحیح ہے مگر انھیں مرجعیت سمجھ میں نہیں آرہی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی معرفت میں کمی ہے۔ اگر امام کی معرفت ہے تو انھیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ امام پردۂ غیب میں ہیں، تو زمانۂ غیبت میں دینِ خدا کو کس کے حوالے کیا گیا ہے؟
سوائے مرجعیت کے اور کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ دینِ الٰہی کی حفاظت کرسکے اور امام (ع) کے ماننے والوں کو دینِ حق پر باقی رکھ سکے۔

ذاکرہ کاظمہ عباس
خواہر کاظمہ عباس ممبئی سے تعلق رکھنے والی ذاکرہ ہیں اور اہل بیت ع کے فضائل و مناقب سے متعلق عوام الناس کو آگاہ کرنے کے لیے انتہائی سرگرم رہتی ہیں۔ علاوہ از ایں تنظیم المکاتب، لکھنؤ کی ایک ایسوسی ایٹ معلم ہیں۔
