امام جعفرِ صادق علیہ السلام: اعمال کا دارو مدار نیت اور تقویٰ الٰہی ہے۔

بسم للہ الرحمٰن الرحیم
میرے تمام قارئین کی خدمت میں سلا عرض کرتا ہوں۔۔۔السلام علیکم!۔
بعد توفیق صلوٰت علی النبی و آلہ، گزارش اسطرح ہے ۔۔۔
کبھی کبھی انسان بظاہر نیک دکھائی دیتا ہے، لوگ اس کے کرشمے بیان کرتے ہیں، مگر اللہ کے نزدیک اصل نیکی وہ ہے جو تقویٰ کے ساتھ ہو۔
آیئے! آج ایک ایسا ہی واقعہ سناؤں جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے کا ہے۔
ایک دن امام صادق علیہ السلام نے اہل مدینہ کے کچھ لوگوں سے ایک شخص کی بہت تعریف سنی۔
اہلِ مدینہ کہنے لگے:
"فلاں شخص بڑا اللہ والا ہے، اس کے ہاتھ سے کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں!"
امام کو تجسس ہوا، امام علیہ السلام نے فرمایا:
"میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔"
کچھ دنوں بعد اتفاق سے ایک دن امامؑ کی نظر اسی شخص پر پڑی۔ لوگ اس کے ارد گرد جمع تھے، وہ کپڑے سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے تھا، بس پیشانی اور آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔ لوگ اس سے عقیدت دکھا رہے تھے، مگر وہ انہیں دور کر رہا تھا۔ آخر وہ وہاں سے اکیلا آگے بڑھنے لگا۔
امامؑ بھی خاموشی سے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ راستے میں ایک نانبائی کی دکان آئی، جہاں رش تھا۔ امام نے دیکھا، وہ شخص آہستہ سے آگے بڑھا... اور چپ چاپ، لوگوں سے نظریں بچا کر دو روٹیاں اٹھا لیں اور انھیں چھپا کر آگے بڑھ گیا۔
یہ دیکھ کر ! امام حیران ہوئے، "یہ کیا؟ یہ تو چوری ہے!"
پھر وہ ایک پھل بیچنے والے کی دکان پر پہنچا۔ وہاں بھی یہی کیا — دو انار چرائے اور چل پڑا۔
اب امام کے چہرے پر تعجب تھا۔ "یہ کیسے اللہ والا ہو سکتا ہے؟"
کچھ دور آگے جا کر ایک بیمار شخص راستے میں بیٹھا ملا، تو اس شخص نے وہ دو روٹیاں اور دو انار اس مریض کو دے دیے۔
تب امام نے آواز دی۔۔۔
امام:
"اے بندۂ خدا!"
وہ رکا، پلٹ کر دیکھا۔
امام نے اس شخص سے کہا:
"میں نے تمہاری بہت تعریفیں سنی تھیں، مگر آج جو دیکھا۔۔۔ میرا دل تمھاری نسبت غمگین ہو گیا ہے۔۔"
نیک شخص نے امام سے دریافت کیا:
"کیا دیکھا تم نے؟"
امام نے اس سے فرمایا:
"تم نے دو روٹیاں اور دو انار چوری کیے۔"
یہ سنتے ہی وہ شخص بولا:
"تم کون ہو؟"
امام نے اس کو اپنی شخصیت سے آشنا فرماتے ہوئے کہا:
"میں جعفر بن محمد بن علی بن حسین ہوں۔"
وہ چونک گیامگر پھر بھی بات بناتے ہوئے کہنے لگا:
"تو تم جعفر صادق ہو؟ مگر تمہیں اپنے نانا کی شریعت کا علم نہیں!"
امامؑ نے مسکرا کر اس سے پوچھا:
"ذرا مجھے بھی بتاو تم شریعت کے کس پہلو کی بات کرتے ہو، جسکا مجھے علم نہیں؟"
وہ شخص اکڑتے ہوئے کہنے لگا:
"قرآن میں اللہ نے فرمایا، ‘جو ایک نیکی کرے گا، اسے دس گنا اجر ملے گا، اور جو ایک برائی کرے گا، اسے اتنی ہی سزا ہوگی.’
"اب سنو! میں نے دو روٹیاں اور دو انار چرائے — چار گناہ ہوئے۔ پھر وہی چار چیزیں میں نے راہِ خدا میں دے دیں — تو چالیس نیکیاں بنیں۔ چار گناہ کم کیے تو چھتیس نیکیاں بچ گئیں!
امامؑ نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا، ایک گہری سانس لی، پھر فرمایا:
"مجھے تم پر افسوس ہو رہا ہے! تمھیں کتابِ خدا کا ذرا سا بھی فہم نہیں ہے۔"
امام نے پھر سے فرمایا:
کیا اللہ نے قراٰن مجید میں یہ نہیں فرمایا کہ: ‘إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ’ یعنی اللہ صرف پرہیزگاروں کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔
اس شخص نے کہا:
"ہاں! بالکل درست"۔
اب امام نے اس شخص کی اصلاح فرمائی:
"سنو! جو تم نے دو روٹیاں اور دو انار چوری کیے — تمھارے نامہ اعمال میں انکے گناہ لکھے گئے۔"
امام نے مزید تشریح فرماتے ہوئے کہا:
"پھر جب تم نے ان چیزوں کو اس مال کے مالک کی اجازت کے بغیر صدقہ میں دے دیا — تو اس عمل کی پاداش میں کہ جس چیز پر تمھارا حق نہیں اسے صدقہ کیا، تمھارے نامہ ء اعمال میں مزید گناہ لکھے گئے۔"
امام نے اس کے عمل کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"یوں تمھارے نامۂ اعمال میں صرف گناہ ہی لکھے گئے، نیکی ایک بھی نہیں!"
یہ سن کر وہ شخص کانپ گیا۔ چہرے کا رنگ بدل گیا، آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اور وہ روتے ہوئے امام سے کہنے لگا:
"اے فرزندِ رسول! میں نے قرآن پڑھا تھا مگر آج میرے علم میں اضافہ ہو گیا"
اسکے بعد، وہ شخص توبہ کرتے ہوئے امام کے قدموں میں گر پڑا۔
نتیجہ اور سبق:
اللہ عمل نہیں، نیت اور تقویٰ دیکھتا ہے۔ کیونکہ پروردگار صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔
حوالہ: پند تاریخ ج ۴، ص ۱۴۱؛ گنجینه معارف ج ۱، ص ۳۱۰

Sayed Minhal
"Sayed Minhal, is a Software Engineer with an MNC from Mumbai, India. He is an ardent follower and supporter of the Ahlal Bayt AS. Minhal has contributed to multiple technical endeavors in spreading the message of Ahlal Bayt AS"

