اخلاص اور اس کی اہمیت

ذاکرہ کاظمہ عباس
18 May 2025
Share:
اخلاص اور اس کی اہمیت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

امام علی رضا علیہ السلام کی حدیث کی روشنی میں اخلاص یعنی خالص نیت کو دین کی بنیاد اور عبادت کی روح قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ امام علی رضا علیہ السلام فرماتےہیں (اللہ کہہ رہا ہے) :

الاخلاص سر من سری استودعتہ قلب من احببتہ من عبادی۔
ترجمہ: اخلاص میرا ایک راز ہےجسے میں اپنے بندوں کے دل میں ودیعت کرتا ہوں۔۔

اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے کام کو انجام دیا جائے.

ہم جو بھی اچھا اور نیک عمل انجام دے رہے ہیں وہ خالص خدا کی خوشنودی کے لیے ہو نہ کہ ریاکاری، یا دکھاوا، یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے۔ یاد رکھیے! اگر ہمارے عمل میں خلوص نہیں ہے تو وہ اللہ کے نزدیک مردود ہو جاتا ہے۔ چاہے وہ عمل ظاہری اعتبار سے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔

دوسرے یہ کہ اخلاص انسان کو ریا کاری۔ شہرت پسندی ۔اور دنیا طلبی سے بچاتا ہے۔

تیسرے یہ کہ خلوص سے انجام دینے والا کام قرب خداوندی کاذریعہ بنتا ہے اور آخرت میں نجات کا سبب بنتا ہے۔ قیامت کے دن وہی عمل ہمیں فایدہ پہونچا یےگا جو خلوص کے ساتھ انجام دیا گیا ہے۔

اخلاص: امام علی رضا علیہ السلام کے تعلیمات کی روشنی میں

اسلام ایک ایسا دین ہےجو اعمال کی ظاہری شکل سے زیادہ اسکے باطنی ارادے اور نیت پر زور دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

وَمَآ اُمِرُوٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّـٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَـهُ الدِّيْنَ حُنَفَآءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ۔۔
ترجمہ: اور انکو حکم نہیں دیا گیا تھا مگر یہ کہ اللہ کی عبادت کریں خالص اسی کے لیے دین کو رکھ کر۔ (سورہ البینہ آیت نمبر 5)

یقینا امام رضاعلیہ السلام کی تعلیم اور انکی حکمت و دانشمندی ہمیشہ امت کے لیے چراغ ہدایت ہے۔ آپ اخلاص کو دین کا جوہر قرار دیتےہیں ۔

امام رضاعلیہ السلام کے سیرت و کردار کہ دیکھا جاے تو آپکا ہر عمل اخلاص سے پُر تھا ۔چاہے وہ علم دین کی تعلیم ہو یا حکمران وقت کے سامنے حق گوئی ہو یا عام لوگوں کی خدمت۔ امام (علیہ السلام) نے اپنے ہر کام میں اللہ کی رضا کو مقدم رکھا۔ آپکے سامنے ظاہری کامیابی اصل کامیابی نہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی اصل کامیابی ہے۔

لہذہ ضروری ہے کہ ہم ہر عمل سے پہلے اپنی نیت کی اصلاح کریں۔ اور اس بات پر توجہ دیں کہ آیا ہم جو کام انجام دیرہے ہیں یہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے ہے یا ‌نام ونمود کے لیے یا پھر اللہ کی رضا کے لیے ۔اخلاص کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم اپنے جزبات اور خواہشات پر قابو رکھیں اور صرف اللہ کی رضا کے لیے عمل انجام دیں۔

اخلاص وہ نورانی صفت ہے جو اللہ کی عطا کردہ ہے یعنی اللہ کی عطا سے دلمیں آتی ہے اسے انسان خود محض ظاہری کوشش سے پیدا نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ کی توفیق شامل حال نہ ہو۔

اخلاص کوئی سطحی جذبہ نہیں ہے بلکہ ایک روحانی کیفیت کا نام ہے جو دل کی گہرائی میں ہوتی ہے۔ یہ ایسی دولت ہے جو محض علم یا عبادت یا ریاضت سے نہیں آتی جبتک اللہ خود اپنے بندے کے دل میں نہ ڈالے۔ اخلاص اللہ کا خاص فضل ہے کہ یہ تب حاصل ہوتا ہے جب اللہ کسی بندے کے دل کو اپنی طرف مایل کرتا ہے اور اسکا عمل شرک ۔ریا۔ شہرت اور نامو نمود سے پاک کر دیتا ہے۔ البتہ ہر وہ شخص اللہ کے اس فضل کو حاصل کر سکتا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنا قدم اٹھاے اور اسکے دلمیں رضاے الٰہی کی طلب ہو۔
امام رضاعلیہ السلام فرماتے ہیں:

الاخلاص ھوالتوحید الحقیقی و بہ تقبل الاعمال
یعنی اخلاص ہی حقیقی توحید ہے اور اسی کے ذریعے اعمال قبول ہوتے ہیں۔

اس حدیث مبارک سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے سارے عمل کا دارو مدار اخلاص پر ہے۔ عمل چاہے کتنا خوبصورت کیوں نہ ہو اگر اخلاص نہ ہو تو عمل بیکار ہے ۔

امارضا علیہ السلام کا علم اور انکے تقوی الٰہی سے سب واقف تھے۔ ایک مرتبہ ایک نصرانی عالم آپ سے مناظرہ کرنے کے لیے آیا۔ مناظرہ علمی تھا مگر وہ امام علیہ السلام کی باتوں سے اس وقت متاثر ہؤا جب اسنے امام علیہ السلام کے چہرے پر خالصتاً خدا کی رضا کے لیے گفتگو کرتے دیکھا۔ اسنے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ

آپ بحث میں جیتنا چاہتے ہیں ؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:

میں صرف سچ کو ظاہر کرنا چاہتاہوں اور سچ چاہے میری زبان سے ظاہر ہو یا تمھاری زبان سے۔ میرا مقصد ہدایت ہے جیتنا میرا مقصد نہیں ہے۔

امام علی رضا علیہ السلام کا یہ جملہ نصرانی کے دل کو متاثر کر گیا اور اتنا پسند آیا کہ اسنے بیساختہ کہا:

یہی خلوص اہل حق کی پہچان ہے۔

اسکے بعد وہ مسلمان ہو گیا۔

حقیقت یہی ہے کہ خلوص سے کیا ہوا عمل کبھی ضایع نہیں ہوتا۔ بہت سے علماء کرام کے واقعات بھی انکے خلوص کو واضح کرتے ہیں۔

خداوند متعال ہم سب کو اخلاص کے ساتھ عمل خیر کرنے کی توفیق عنایت فرماے آمین

Zakerah Kazma Abbas

ذاکرہ کاظمہ عباس

خواہر کاظمہ عباس ممبئی سے تعلق رکھنے والی ذاکرہ ہیں اور اہل بیت ع کے فضائل و مناقب سے متعلق عوام الناس کو آگاہ کرنے کے لیے انتہائی سرگرم رہتی ہیں۔ علاوہ از ایں تنظیم المکاتب، لکھنؤ کی ایک ایسوسی ایٹ معلم ہیں۔