اللہ سے قربت کیسے حاصل ہو؟

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
اللہم عجل لولیک الفرج ۔
خداوند متعال ارشاد فرما رہا ہے
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّى قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا۟ لِى وَلْيُؤْمِنُوا۟ بِى لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ۔
البقرہ آیت ١٨٦ ۔
اور اے پیغمبر! اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں. پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں جب بھی وہ پکارتا ہے لہذا مجھ سے طلب قبولیت کریں اور مجھ پرایمان و اعتماد رکھیں کہ شاید اس طرح راہ راست پر آجائیں
(انوارالقراٰن۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی)
یعنی۔۔۔اے پیغمبر صل اللہ علیہ و اٰلہ و سلم اگر میرے بندے تم سے میرے بارے میں سوال کریں تو کہہ دیجیے میں انسے قریب ہوں پکارنے والے کی آواز سنتا ہوں وہ جب بھی پکارتا ہے لہذہ مجھ سے طلب قبولیت کرے۔ اس آیہ مبارکہ سے واضح ہو رہا ہے کہ خدا اپنے بندوں سے کس قدر محبت کرتا ہے۔ اس قدر محبت کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے ہر وقت قریب رہتا ہے۔ نہ یہ کہ صرف قریب رہتا ہے بلکہ وہ ہماری آواز بھی سنتا ہے اور ہماری دعاؤں کو بھی قبول کرتا ہے۔
اب سوال یہ کہ خدا تو کہہ رہا ہے کہ میں بندوں سے قریب ہوں۔ تو کیا جس طرح سے خدا اپنے بندوں کے قریب ہے اسی طرح سے بندہ بھی اپنے آپکو خدا سے قریب محسوس کرتا ہے؟ کیونکہ دونو ں باتوں میں فرق ہے خدا تو بیشک اپنے بندوں کے قریب ہے مگر بندہ بھی اپنے رب کے قریب ہو یہ ضروری نہیں۔
ایسا اسلئے کہ بندے کا عمل اسے خدا کے قریب بھی کر سکتا ہے اور بندے کا عمل ہی اسے خدا سے دور بھی کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سب سے زیادہ ماں اپنے بچے کے قریب ہوتی ہے اور ماں ہی سب سے زیادہ اپنے بچے سے محبت بھی کرتی ہے۔ ایک مان اپنے چے سے اتنے قریب ہوتی ہے کہ بچے کو کوئی بھی تکلیف یا پریشانی ہو ماں کو خبر ہو جاتی ہے۔ جب کہ بچہ اپنی تکلیف اسے بتاتا بھی نہیں۔ مگر ممتا اپنے بچے کی پریشانی جان لیتی ہے اسکو کو سمجھتی بھی ہے اور دور بھی کرتی ہے۔
پھر یہی بچہ جب تھوڑا بڑا ہو جاتا ہے اور تب بھی ماں تو اسکے قریب ہی ہوتی ہے۔ ساتھ یہ بھی کہ ماں اولاد سے تب بھی ویسی ہی محبت بھی کرتی ہے۔ مگر بچہ اپنی بے اعتنائی اور بے توجہی کی وجہ سے ماں سے دور ہوتا جاتا ہے۔ تب اسے ماں کی بھی باتیں گراں اور نا پسندیدہ لگتی ہیں۔ وہ ان باتوں کو بے جا، بے سود و غیر ضروری سمجھنے لگتا ہے۔ اگرچہ کہ ماں کی باتیں بچے کے فائیدے کے لئے ہی ہوتی ہیں۔
پر۔ہر صورت! ماں تو اپنے بچے کو دور ہوتے نہیں دیکھ پاتی۔ تو پھر غور کریں! ہمارا رب تو ماں سے ستر گنا سے کہیں زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہےاور بندوں کے حالات سے واقف ہے۔ اس لیے کہ وہ بندوں کے بہت قریب ہے۔
خود خداوند عالم کہہ رہا ہے کہ میں تمھاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں اور جب خدا اتنے قریب ہے بندوں کے تو بندوں کو بھی چاہیئے کہ وہ بھی خدا کے قریب ہوں۔
آئیے دیکھیں کہ قربت خداوندی حاصل کیسے کریں؟
قربت خداوندی روحانی کیفیت کا نام ہے اور بندہ اپنے اندر روحانی کیفیت کیسے پیدا کرسکتا ہے یہ کیفیت صرف عبادت سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اسکے لیئے اخلاص، خشیت اور عاجزی ضروری ہے۔ اگر اخلاص نہیں ہے تو کوئی عمل قابل قبول نہی ہوگا۔ اور اگر خشیت خدانہ ہو تو انسان خدا کی نا فرمانی سے اپنے آپکو بچا نہیں سکتا۔ اگر عاجزی نہ ہو تو اسکا غرور اسکی ساری نیکیوں کو ضایع کر دیگا۔ خداوند عالم عجز و انکساری کو بہت پسند کرتا ہے۔
خداوند عالم نے جناب موسیٰ ع کو حکم دیا کہ:
میری مخلوق میں سب سے حقیر شئے جو تمھاری نظر میں ہو، اسے لے آؤ!
جناب موسیٰ ع نے کافی ڈھونڈھا مگر انھیں کؤی نہیں ملا۔ تو اللہ نے جناب موسیٰ ع پوچھا کہ:
میں نے تمہیں جو حکم دیا تھا اسکا کیا ہوا؟
جناب موسیٰ ع نے کہا:
پالنے والے! میں نے بہت تلاش کیا مگر میں نے اپنے سے زیادہ کسی کو حقیر نہی پایا!
یہ سنکر اللہ نے جناب موسیٰ ع کادرجہ اور بلند کر دیا کیونکہ خداوندعالم مغرور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
کیا قرب خدا سے فائدہ حاصل ہوتا ہے؟
بیشک خدا کا قرب حاصل کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے دعاء قبول ہوتی ہے ۔بندہ معصیت خداوندی سے اپنے کو بچاتا ہے۔۔غرض کہ زندگی میں برکت اور آخرت میں کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے۔
قرب خدا حاصل کرنے کا پہلا زینہ اخلاص ہے اور سب سے پہلا عمل نماز ہے۔ نماز مومن کی معراج ہے اور سب سے پہلے جس چیز کا سوال ہوگا وہ نماز ہے اور جسکی نماز قبول ہوگی اسکا ہر عمل قبول ہو گا کیونکہ نماز ہی انسان کو برائیوں سے بچاتی ہے۔
چنانچہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ
س عنکبوت آیت 45
نماز قائم کرو کیونکی نماز ہر برائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے
(انوارالقراٰن۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی)
دوسرا عمل قران مجید کی تلاوت تلاوت قرآن دلوں کو زندہ کرتی ہے۔ تلاوت کرنا گویا اللہ سے باتیں کرنا ہے۔ مولائے کائنات کا مشہور جملہ ہے کہ:
جب میں چاہتا ہوں کہ خدا سے باتیں کروں تو میں نماز پڑھتا ہوں اور جب میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھسے باتیں کرے تو میں قران مجید پڑھتا ہوں۔
البتہ تلاوت قرآن کے ساتھ اس پر تدبر کرنا کرنا بھی قربت خدا کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ خودقراٰن مجید میں خداوند عالم کہہ رہاہے:
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلْقُرْءَانَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَآ
سورہ محمد ۴۷ آیت ۲۴
تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں
(انوارالقراٰن۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی)
یعنی قراٰن صرف پڑھنے کیلئے ہی نہیں بلکہ سمجھ نے اور اسپر عمل کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔
چوتھا عمل ذکرِالٰہی ہے۔ یعنی اللہ کے ذکر سے اپنی زبان کو معطر رکھنا۔
فَٱذْكُرُونِىٓ أَذْكُرْكُمْ وَٱشْكُرُوا۟ لِى وَلَا تَكْفُرُونِ
سورۃ بقرہ آیت 152
اب تم ہم کو یاد کرو تاکہ ہم تمھیں یاد رکھیں اور ہمارا شکریہ ادا کرو اور کفرانِ نعمت نہ کرو
(انوارالقراٰن۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی)
یعنی تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کرونگا۔ چنانچہ بہت سی مثالیں ہیں کہ جن لوگوں نے اللہ کا ذکر کیا تو اللہ نے بھی ان کے ذکر کو قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا۔
مثلاً جناب ابراہیم ع نے خانہ کعبہ کی تعمیر کرکے اللہ کے ذکر کو باقی رکھا، تو خدا نے بھی انکے ذکر کو حج کے ارکان میں شامل کرتے ہوئے جناب ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام و جناب حاجرہ علیہا السلام کے عمل کو واجب ارکانِ حج قرار دے کر انکے ذکر کو قیامت تک کے لیے محفوظ کرلیا۔ اللہ خود فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے ۔
اللہ سے قربت کا ایک اور ذریعہ توبہ واستغفار بھی ہے چنانچہ خدا فرماتا ہے
۔۔۔ ٱللَّهُ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلْمُتَطَهِّرِينَ
سورۃ البقرہ آیت ٢٢٢
بہ تحقیق! خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے
(انوارالقراٰن۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی)
یعنی خدا توبہ کرنے والے سے محبت کرتا ہے.
پھر اچھا اخلاق بھی اہم ہے۔ پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں کہ:
سب سے زیادہ جنت میں لے جانے والا عمل تقوی اور حسن اخلاق ہے
صدقہ وخیرات بھی قرب خدا کا بہترین ذریعہ ہے خدا فرماتا ہے۔
مَّثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلِّ سُنۢبُلَةٍۢ مِّا۟ئَةُ حَبَّةٍۢ ۗ وَٱللَّهُ يُضَـٰعِفُ لِمَن يَشَآءُ ۗ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌ
س بقرہ آیت ٢٦١
جو لوگ راہِ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ییں ان کے عمل کی مثال اس دانہ کی یے جس سے سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر یر بالی میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس کے لئے چایتا یے اضافہ بھی کردیتا یے کہ وہ صاحبِ وسعت بھی یے اور علیم و دانا بھی
(انوارالقراٰن۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی)
یعنی جس طرح کسان زمین میں کچھ دانے چھپا دیتا ہے اور پھر خداوند عالم ایک ایک دانہ سے سؤ سؤ دانے پیدا کردیتا ہے۔ اس طرح راہ خدا میں خرچ کروالوں کو کبھی دس گنا کبھی ستر گنا اور کبھی بے حساب عطا کر دیتا ہے ۔
قرب خدا حاصل کرنے کے لیے مجاہدہ نفس بھی ضروری ہے جیسے خداوند متعال کہہ رہا ہے۔
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِۦ وَنَهَى ٱلنَّفْسَ عَنِ ٱلْهَوَىٰ (٤٠) فَإِنَّ ٱلْجَنَّةَ هِىَ ٱلْمَأْوَىٰ (٤١)
سورۃ النازعات ۷۹ آیات ۴۰ اور ۴۱
اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے تو جنّت اس کا ٹھکانا اور مرکز ہے
(انوارالقراٰن۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی)
یہ ساری چیزیں قربت خداوندی حاصل کرنے میں بہترین مددگار ہیں مگر ان تمام خوبیوں سے برتر اور بڑھ کر مودت اہلبیت کا مقام ہے جو اشد ضروری ہے۔ کیون کہ سارے عمل کی قبولیت کا دارومدار نماز پر ہے نماز قبول تو سارے اعمالِ قبول۔ مگر خود نماز کی قبولیت کا دارو مدار ولایت علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہے۔
اسی لیے کسی نے خوب کہا کہ ۔
بے حب اہلبیت عبادت حرام ہے
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمیں
Image by Abdullah Shakoor from Pixabay

Zakerah Kazma Abbas
Khahar Kazma Abbas is a Zakera from Mumbai, India. She has been extremely active in educating masses about the virtues of the Ahlal Bayt AS. She is an associate educator of Tanzeem ul Makatib, Lucknow


