اسلام میں جہیز کا حقیقی تصور اور اسراف کی ممانعت

آج کے دور میں لڑکیوں کی شادی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، اور اس کی خاص وجہ جہیز ہے۔ جبکہ شادی میں جہیز لینا یا دینا اسلامی تعلیمات کے مطابق نہ فرض ہے، نہ سنت، اور نہ ہی اس کی کوئی شکل یا مقدار شریعت نے مقرر کی ہے۔ اس کا تعلق سماجی رسم و رواج سے ہے، اور اگر اس میں فضول خرچی، دکھاوا، یا کسی پر زور زبردستی اور ظلم شامل ہو تو یقیناً یہ حرام، ناجائز اور قابلِ مذمت ہو جائے گا۔
معصومینؑ کے قول کے مطابق جنابِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو جہیز کی شکل میں جو سامان دیا گیا تھا، وہ نہایت مختصر، سادہ اور بقدرِ ضرورت تھا۔ (حوالہ: الکافی، جلد 5، صفحہ 375) ایک روایت میں ہے کہ آپؑ کا جہیز ایک بکری کی کھال، چمڑے کا تکیہ، کھجور کے پتے کی چٹائی، پانی کا مشکیزہ، اور آٹا پیسنے کی چکی پر مشتمل تھا۔ یہ چند ضروری چیزیں ہمیں یہ سادگی سکھاتی ہیں کہ دینِ اسلام میں جہیز کا مقصد سہولت ہے، نہ کہ دکھاوا یا بوجھ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
“جو شخص کسی عورت سے اس کے مال یا حسن کی خاطر شادی کرتا ہے، وہ ان چیزوں سے محروم رہ جاتا ہے؛ مگر جو دینداری کی خاطر شادی کرتا ہے، اللہ اسے مال و حسن دونوں عطا فرماتا ہے۔” (وسائل الشیعہ، جلد 14، صفحہ 30)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ شادی کا معیار مال و دولت نہیں بلکہ دینداری ہونی چاہیے۔ جہیز کی بنیاد پر رشتہ طے کرنا غلط نیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
فضول خرچی کے بارے میں قرآنِ مجید میں سورہ بنی اسرائیل، آیت نمبر 27 میں خداوندِ عالم ارشاد فرماتا ہے:
“بے شک فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔”
لہٰذا اگر جہیز میں فضول خرچی، دکھاوا یا نام و نمود شامل ہو، تو یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنے گا۔
جہیز لینا یا دینا نہ فرض ہے، نہ سنت۔ البتہ اگر خلوصِ نیت سے ضروری اشیاء بطورِ تعاون دی جائیں اور کسی پر بوجھ نہ ڈالا جائے، تو یہ ثواب کا باعث بن سکتا ہے۔ مگر اگر اس میں رسم و رواج، دکھاوا، مقابلہ بازی یا ظلم شامل ہو تو یہ کسی طرح جائز نہیں۔
معصومینؑ کی تعلیمات نے شادی میں آسانی اور سادگی کو بہت ترجیح دی ہے۔

ذاکرہ کاظمہ عباس
خواہر کاظمہ عباس ممبئی سے تعلق رکھنے والی ذاکرہ ہیں اور اہل بیت ع کے فضائل و مناقب سے متعلق عوام الناس کو آگاہ کرنے کے لیے انتہائی سرگرم رہتی ہیں۔ علاوہ از ایں تنظیم المکاتب، لکھنؤ کی ایک ایسوسی ایٹ معلم ہیں۔
