بچوں کی تربیت کیسے کی جائے؟

ذاکرہ کاظمہ عباس
18 May 2025
Share:
بچوں کی تربیت کیسے کی جائے؟

اس جدید دور میں بچوں کی تربیت والدین کے لیے بہت اہم مسلہ ہے۔ ہر ایک مانباپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے ہر فیلڈ میں کامیاب ہوں۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی۔ اگر بچہ دنیاوی اعتبار سے کامیاب ہے تو اس کے اندر دینداری اور خوش اخلاقی بھی ہو۔ اگر بچے نے دنیا وی تعلیم تو بہت اچھی حاصل کر لی ہے مگر اسکے اندر انسانیت نہ ہو شرافت سے کوسوں دور ہو اچھا اخلاق نہ ہو تو دنیاوی اعتبار سے بھی وہ ہر گز کامیاب نہیں ہو پائے گا۔ لہذہ ضرور ی ہے کہ اسکے اندر اچھے صفات موجود ہوں۔

حالانکہ، آجکل کے بچوں میں دینداری کی صفت بقدرے کم پائی جاتی ہے، اس بنا پر والدین کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ آج کا زمانہ ڈیجیٹل دور کہلاتا ہے۔ بچے موبائل انٹرنیٹ گیمز اور سوشل میڈیا سے اسقدر جڑے ہوۓ ہیں کہ انکے پاس اتنا وقت بھی نہیں رہتا کہ وہ اپنے والدین کے پاس تھوڑی دیر بیٹھیں۔ کچھ اچھی باتیں سیکھیں۔ والدین کے پاس بیٹھنا بچوں کو بوجھ لگتا ہے۔

ایسے حالات میں ایک شریف اور نیک ماں باپ کے لیے بچوں کی تربیت کرنا بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ آخر کیسے والدین اپنے بچوں کی دنیا کے ساتھ آخرت کو بھی کامیاب بنائیں؟ مگر والدین تھک ہار کر تو بیٹھ نہیں سکتے! لہٰذا! انکی کوششیں جاری رہنی چاہیے۔ کیونکہ یہ مسلمان والدین کی ذمےداری ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت اسلامی طرز پر کریں۔

کچھ ایسے اصول ضرور ہیں کہ اگر ان اصولوں پر والدین عمل کریں تو انشاءاللہ وہ ضرور کامیاب ہونگے۔

مثلاً والدین کو چاہیئے کہ بچپن سے ہی بچوں کو ٹایم ٹیبل کا عادی بناییں۔ یعنی ان کے "کھانے پینے", "سونے جاگنے" , "کھیلنے کودنے'، "پڑھنے لکھنے" اور ساتھ ہی "والدین کے ساتھ" میں گذارنے کا وقت بھی متعین کریں۔

خودوالدین بھی اپنا ٹایم ٹیبل اسی اعتبار سے متعین کرلیں۔ اگر بچپن سے بچوں کو اسکا عادی بنایا جاۓ۔ خصوصاً ماں کو! کم از کم ماں کو ضرور اپنے ہر کام کا وقت معین کرنا چاہیے (کیونکہ بچہ ماں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا ہے)، جب ماں وقت سے ہر کام کرے گی تو بچہ بھی آسانی کے ساتھ وقت کا پابند ہو جائیگا۔ اسلئیے کہ بچہ وہی کرتا ہے جو ماں کو یا باپ کو کرتے دیکھتا ہے۔

والدین اول وقت نماز کے پابند ہونگے تو بچہ بھی آپکے ساتھ مصلّے پر آجائےگا۔

اگر والدین جھوٹ بولنے سے پرہیز کرینگے تو بچے بھی جھوٹ سے بچیں گے

ایسا کرنے سے وقتِ ضرورت والدین کو سمجھانے میں آسانی ہوگی۔ جیسے، اگر باپ بلا وجہ رات کو گھر دیر سے آے گا تو بچہ بھی جب تھوڑا سمجھدار ہوگا تو گھر میں دیر سے ہی آےگا۔مزید یہ کہ، اگر ماں باپ اسکو منع کرینگے تو وہ برجستہ کہہ سکتا ہے کہ آپ بھی تو دیر سے آتے تھے۔

یاد رکھیں! ہمارا ہر عمل اچھا ہو یا برا بچے پر اثر انداز ہوتا ہے لہذہ، ہمیں اچھے اعمال انجام دینا چاہیے۔ نماز اول وقت پر ادا کریں اور بچے کو بھی اول وقت پر نماز پڑھنے کی ترغیب دلائیں۔ ڈانٹ ڈپٹ کر نہی بلکہ پیارو محبت سے نماز کے فوائد بتا کر نماز پڑھوائیں۔ کم از کم دن بھر میں ایک بار بچوں کے سامنے قران مجید کی تلاوت ضرور کریں چاہے چند آیتیں ہی پڑھیں موبائل پر خود بھی کنٹرول ہو اور بچوں کے لیے بھی وقت مقرر کردیں کہ کب دیکھنا ہے اور کتنی دیر تک دیکھ سکتے ہو۔ بچے موبائل پر دنیا تو دیکھ لیتے ہیں مگر گھر والوں کی محبت نہیں دیکھ پاتے۔

گھر میں ایک وقت ایسا ضرور نکالیں جب کسی کے ہاتھ میں موبائل نہ ہو صرف فیملی ٹائیم ہو اور سب ساتھ میں بیٹھ کر کچھ اچھی، کچھ دینی باتیں کریں اور ایسی باتیں کہ بچے کو بھی آپکی بات سننے میں اچھا لگے ۔

بچے کے لیے کارٹون یا گیمز کی جگہ پر اسلامی کارٹون یا دینی ویڈیوز وغیرہ کا انتظام کریں۔

بچوں کو ڈانٹنے مارنے کے بجائے انسے دوستانہ رویہ رکھیں۔

فرصت کے لمحوں میں بچے سے اسکول کے بارے میں بات کریں۔

انکے دوستوں کے بارے میں سمجھنے کی کوشش کریں۔

آج انھیں کیا پڑھایا، گیا آج وہ کیا سیکھ کر آئے ہیں اس طرح کی باتیں ضرور پوچھیں۔

مگر اس بات کا ضرور دھیان ہو کہ اسکول سے آنے کے بعد فوراً ہرگز نہ پوچھیں بلکہ انکو پیار کریں اور مثال کے طور پر، آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ـآپ گھر میں نہیں تھے تو گھر میں اچھا نہیں لگ رہا تھاـ۔ تاکہ بچے کو اپنی اہمیت سمجھ میں آئے۔ یعنی بچہ اپنے آپ کو افرادِ خانہ کا ایک اہم رکن محسوس کرے۔

 بچے کو جب نماز پڑھنے کے لیے کہا جاے تو نماز کے چند فایدے ضرور بتائے جائیں، مثلاً یہ کہ؛ ہم نماز اس لیے پڑھتے ہیں تاکہ ہم اپنے اللہ سے باتیں کریں۔ ہمیں نماز کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس لیے دیا ہے کہ وقت کی پابندی کریں اور اپنے آپکو برائیوں سے بچا سکیں۔ نماز کی وجہ سے ہم پاک وصاف رہتے ہیں۔ نماز پڑھنے کی وجہ شیطان ہمارے پاس نہیں آتا۔

اگر والدین بچپن سے ہی بچوں کے ذہن میں اسطرح کی باتیں ذہن نشین کر واتے رہیں تو بچے کا کردار مرتب ہگا اور اخلاق مزیّن ہوں گے۔ جس کی وجہ سے اس کی شخصیت کمال کو پہنچنے لگے گی۔

کم از کم ہفتے میں ایک دن ایسا موقعہ ضرور فراہم کریں جب بچوں کو معصومین علیہم السلام کے واقعات سنائے جائیں۔ مولا علی علیہ السلام اور مولا عباس علیہ السّلام، جناب علی اکبر علیہ السلام، جناب قاسم علیہ السلام کی بہادری کے قصے۔ مولا علی علیہ السلام کے عدل و انصاف کے واقعات سنائے جائیں۔ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زندگی کے واقعات، کہ بی بی کی کمسنی کے باوجود آپ سلام اللہ علیہا اپنے بابا (صل اللہ علیہ و آلہ) کا کا کتنا خیال رکھتی تھیں اور اپنے گھر کے کاموں کو بہترین طریقے سے انجام دیتی تھیں۔ اسطرح کے واقعات بچوں کو ذہن نشین کرائیں۔

بچے اگر اگر معمولی سا کام بھی اچھا کریں تو انکی تعریف کریں انکو پیار کریں۔ مثلاً، انھوں نے اپنے کھانے کی چیزیں یا کھلونے کسی سے شیر کیے یا انھوں نے کبھی آپکو نماز کا وقت یاد دلادیا تو کھلے دل سے اسکی تعریف کریں خوب پیار کریں اور کہیں کہ "ماشاءاللہ! تم تو امام زمانہ عجل اللہ تعالٰی فرجہ الشریف کے سپاہی بن رہے ہو!"۔ ایسی باتوں سے انشاءاللہ ان پر مثبت اثرات رونما ہونگے۔

بچوں کے اسکول کی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم اور اور دینی ماحول کا اہتمام کرنا والدین کی عظیم ذمہ داری ہے۔ دیکھا جا رہا ہے کی؛ آج کل کے زمانے میں کچھ سمجھدار والدین جتنا خرچ اور جتنی محنت بچے کی دنیا سنوارنے کے لیے کرتے ہیں اتنی ہی محنت اپنے بچوں کی دینی تعلیم کو لے کر بھی کر رہے ہیں۔ اس رویہ کی بنا پر یقیناً انکے بچے امام زمانہ علیہ السلام کے سپاہی بن کر تیار ہوجائیں گے۔ انشا اللہ۔۔۔

خداوند عالم ہم سب کو تربیت اولاد کی سلسلے میں غوروفکر کرنے کی توفیق عنایت فرماے۔

آمین ثم آمین۔

  وماعلینا الاالبلاغ ۔۔۔۔

اسی زمرے میں مزید مکالمے، متسل بہ عنوان

قسط ۴: بچوں کی تربیت کیسے کی جائے؟
قسط ۳: اولاد کی تربیت سے پہلے والدین اپنی تربیت کریں
قسط ۲: اعتماد اور رازداری ازدواجی زندگی کی بنیاد ہے
قسط ۱:تربیت اولاد اور زوجہ کا کردار

Image by Fajar Arif from Pixabay
Zakerah Kazma Abbas

ذاکرہ کاظمہ عباس

خواہر کاظمہ عباس ممبئی سے تعلق رکھنے والی ذاکرہ ہیں اور اہل بیت ع کے فضائل و مناقب سے متعلق عوام الناس کو آگاہ کرنے کے لیے انتہائی سرگرم رہتی ہیں۔ علاوہ از ایں تنظیم المکاتب، لکھنؤ کی ایک ایسوسی ایٹ معلم ہیں۔

مضمون سے منسوب دیگر مکالمے