غدیر کی اہمیت قرآن مجید کی روشنی میں

Zakerah Kazma Abbas
3 June 2025
Share:
غدیر کی اہمیت قرآن مجید کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہم عجل لولیک الفرج 🤲

قرآن مجید کی روشنی میں غدیر خم کی اہمیت ایک نہایت اہم اور گہرے مفہوم کی حامل ہے۔ اگرچہ قرآن مجید میں لفظ "غدیر خم" صراحتاً نہیں آیا ہے، لیکن کچھ آیات ایسی ضرور ہیں جنھیں علمائے اسلام اور مفسرین نے واقعۂ غدیر سے مربوط کیا ہے۔ خاص کر مکتبِ تشیع کے علماء نے، اور کچھ اہلِ سنت کے علماء نے بھی، بہت واضح لفظوں میں غدیر خم کی عظمت و منزلت اور اس کی اہمیت کو ضروری سمجھ کر واضح کیا ہے۔

قرآن کریم میں غدیر خم سے متعلق یہ آیہ کریمہ، جسے "آیۂ بلغ" کہا جاتا ہے، سورہ مائدہ آیت 67:

"یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْکَ مِن رَّبِّکَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۗ وَاللَّهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ"
ترجمہ: اے رسول! پہنچا دیجیے وہ جو آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اور اگر آپ نے اسے نہیں پہنچایا تو گویا رسالت کا کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ آپ کو لوگوں کے (شر) سے محفوظ رکھے گا۔

اس آیۂ کریمہ سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جو پیغام سنانے کا حکم دیا جا رہا ہے، وہ ایک بہت خاص پیغام ہے، کیونکہ خداوندِ عالم نے اس میں بہت سخت لہجہ استعمال کیا ہے۔ لہجے کی سختی یہ بتا رہی ہے کہ اب تک جتنے بھی پیغامات حضورﷺ نے پہنچائے، ان تمام پیغامات میں یہ پیغام سب سے اہم اور افضل ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون سا پیغام تھا کہ اگر حضورﷺ یہ پیغام نہ پہنچاتے تو ان کی ۲۳ سالہ محنتوں پر پانی پھر جاتا؟ یعنی ۲۳ سال تک تبلیغِ دین کے سلسلے میں جو تکلیفیں اور مشقتیں برداشت کیں، وہ سب بیکار ہو جاتیں۔

دس سال تک مکہ میں کفار اور مشرکین کے درمیان تبلیغِ دین کے سلسلے میں جتنی تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کیں، یہاں تک کہ آپ کو حکمِ خدا سے اپنے وطن عزیز کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑا۔ اور مدینہ آنے کے بعد بھی آپ مسلسل تبلیغِ دین میں مصروف رہے۔ یہاں بھی حضورﷺ کو بہت محنت و مشقت کرنی پڑی، بڑی بڑی جنگیں لڑنی پڑیں۔ البتہ ہر جنگ میں مولاے کائنات کی مدد سے آپ کو فتح و نصرت حاصل ہوتی رہی۔

غرض کہ مدینہ میں بھی ۱۳ سال تک مسلسل تبلیغِ دین کا سلسلہ جاری رکھا، اور اس حد تک کامیابی ملی کہ قرآن مجید نے یہ اعلان کر دیا:

"إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ۔ وَرَأَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللَّهِ أَفْوَاجًا" (سورۃ النصر: آیت 1-2)
ترجمہ: جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے گی، اور تم دیکھو گے کہ لوگ فوج در فوج دینِ خدا میں داخل ہو رہے ہیں۔

یعنی خداوندِ متعال نے اپنے حبیب کو کامیابی کا مژدہ بھی سنا دیا۔

اس کے بعد اب کون سا ایسا پیغام باقی رہ گیا تھا کہ اگر اس کو حضورﷺ نہ پہنچاتے تو گویا رسالت کا کوئی کام ہی انجام نہ پایا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس پیغام کو پہنچانے کا حکم دیا جا رہا ہے، پیغمبرِ اسلام کو ان کی زندگی کے آخری دنوں میں، وہ پیغام اتنا ضروری ہے کہ اس کو نہ پہنچانے کی صورت میں پیغمبرِ اسلام کی رسالت بے معنی ہو جاتی — گویا وہ پیغام پیغمبرِ اسلام کی رسالت کا سرٹیفیکیٹ ہے۔

مثال کے طور پر ایک انسان بڑی محنت و لگن کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہا ہو اور وہ بہترین ڈاکٹر بننا چاہتا ہو۔ اس نے اپنی محنت سے اپنا کورس مکمل کر لیا، اور بہت اچھے نمبروں سے کامیابی بھی حاصل کر لی، اور ایک اچھا ڈاکٹر بن گیا۔ مگر سرکار نے اسے سرٹیفیکیٹ دینے سے انکار کر دیا۔ اب کیا وہ شخص بغیر سرٹیفیکیٹ کے اپنا دواخانہ کھول سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اگر اس کے پاس سرٹیفیکیٹ نہیں ہے تو چاہے وہ کتنا ہی اچھا ڈاکٹر ہو، وہ کامیاب نہیں ہوگا، نہ کوئی اس سے دوائیں لے گا۔ حالانکہ تعلیم اس کی مکمل ہو چکی ہے، مگر بغیر سرٹیفیکیٹ کے اس کی تعلیم بے مقصد ہوگی، کیونکہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اسی طرح سے پیغمبرِ اسلام نے ۲۳ سال تک کارِ رسالت انجام دیے، اور بڑی محنت و مشقت سے، تکلیفوں اور مصیبتوں کا سامنا کرتے ہوئے، دینِ الٰہی کو لوگوں تک پہنچا دیا۔ اب حضورﷺ کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ اگر اس خاص پیغام کو نہیں پہنچایا، تو گویا رسالت کا کوئی کام ہی انجام نہیں دیا۔

یعنی اس پیغام کو پہنچانے میں خداوندِ عالم اتنا سخت لہجہ اختیار کر رہا ہے، مگر پیغمبرِ اسلام اس خاص پیغام کو پہنچانے میں تحمل سے کام لے رہے ہیں۔ اس پیغام کو سنانے میں تاخیر ہو رہی ہے — آخر کیوں؟ حضورﷺ پس و پیش میں ہیں، جبکہ اس سے پہلے سارے احکامات کو حضورﷺ نے بغیر کسی پس و پیش کے، بغیر گھبرائے، کافروں کے سامنے بیان کیا۔ مکہ میں، جہاں صرف کافر و مشرکین تھے، اس ماحول میں بھی توحید کا پیغام پہنچایا۔

ایسے ماحول میں "قُولُوا لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ" کی آواز بلند کی گئی، جہاں صرف بتوں کی پرستش ہو رہی تھی۔ خانۂ کعبہ میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔ ان بتوں کے خلاف ایک خُداےِ یکتا کی عبادت کا اعلان کرنا بہت مشکل کام تھا۔ وہاں یہ کہنا کہ "کوئی خدا نہیں، سوائے خداےِ واحد کے" — یہ بہت بڑی ہمت اور جرأت کی بات تھی۔

مگر اس وقت نہ خدا نے سخت لہجہ اختیار کیا، اور نہ یہ کہا کہ اگر ہماری توحید نہ پہنچائی گئی تو تمہاری رسالت بے مقصد ہو جائے گی۔ اور پیغمبرِ اسلامﷺ نے بھی بغیر کسی ڈر اور خوف کے، کفار کے مجمع میں "لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ" کی صدا بلند کر دی۔

لیکن پیغمبر اکرمﷺ کے آخری حج کی واپسی پر، غدیرِ خُم کے میدان میں، جب سوا لاکھ حاجیوں کا مجمع تھا، اُس وقت جو پیغام خداوندِ عالم نے سنانے کا حکم دیا — اُس کا لہجہ نہ صرف سخت تھا بلکہ پیغمبرﷺ کو اس پیغام کو پہنچانے میں گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی۔

تبھی تو خدا فرما رہا ہے:

"وَاللّٰهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ"
ترجمہ: اور اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

یعنی اللہ اپنے حبیب سے شر سے بچانے کا جو وعدہ کر رہا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پیغمبرﷺ کا گھبرانا بلا وجہ نہیں تھا۔ یہ صرف شک و شبہ کی بنیاد پر تحمل نہیں تھا، بلکہ خطرے کا یقین تھا۔

اگر کوئی خطرہ نہ ہوتا تو اللہ یوں نہ کہتا کہ "میں آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھوں گا"۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے تھا کہ:

"آپ بے جھجھک یہ پیغام لوگوں تک پہنچا دیں، یہاں کوئی خطرہ نہیں۔"

لیکن اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر فرمایا:

"وَاللّٰهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ" — یعنی "اے پیغمبر! میں آپ کو لوگوں کے شر سے بچاؤں گا"۔

یہ اللہ کی طرف سے تحفظ کا اعلان ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ پیغمبرﷺ کو اس پیغام کے ردعمل کا شدید خدشہ تھا۔

تمام علمائے کرام اور مفسرین نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ یہ حکم حضرت علیؑ کی ولایت کے اعلان کے بارے میں تھا، جو غدیرِ خُم کے مقام پر دیا گیا۔

image by printest

Zakerah Kazma Abbas

Zakerah Kazma Abbas

Khahar Kazma Abbas is a Zakera from Mumbai, India. She has been extremely active in educating masses about the virtues of the Ahlal Bayt AS. She is an associate educator of Tanzeem ul Makatib, Lucknow