حکایت ۱: مجسم قرآن

مولانا وفا حیدر خان
27 April 2025
Share:
حکایت ۱: مجسم قرآن

روایت ہے کہ سعد بن ہشام رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ )کے بارے میں جاننے کا شدید اشتیاق رکھتے تھے، مگر جب وہ یہ سوال دل میں لیے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے، تب تک آپ دنیا سے پردہ فرما چکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ارادہ کیا کہ نبی کریم (ص) کی زوجہ، حضرت عائشہ کے پاس جائیں اور ان سے سوال کریں کہ حضور (ص) کا اخلاق کیسا تھا؟

سعد بن ہشام کہتے ہیں:

"میں حضرت عائشہ کے پاس گیا اور عرض کیا: رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) کا اخلاق کیسا تھا؟

انہوں نے سوالیہ انداز میں جواب دیا: 'أما تقرأ القرآن؟' کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟

میں نے کہا: ہاں، پڑھتا ہوں۔

تب انہوں نے فرمایا:

'کان خلق رسول اللہ القرآن'
یعنی رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) کا اخلاق، قرآن ہی تھا۔"

یعنی آپ سراپا قرآن تھے، قرآن کا عملی نمونہ، اخلاقی آیات کی چلتی پھرتی تفسیر تھے۔ رسول خدا وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے قرآن کے اخلاقی، معاشرتی اور روحانی پیغامات کو اپنی زندگی میں نافذ کر کے دکھایا۔

اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان الفاظ میں بیان فرمایا:

"وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ" | "اور بے شک آپ عظیم اخلاق کے حامل ہیں۔" (سورۂ قلم، آیت 4)

اور سعدی نے محبت و عقیدت سے یوں کہا:

"ہمچو زمیں، خواهد آسمان کہ بیفتد
تا بدهد بوسه بر نعال محمد"
یعنی: آسمان چاہتا ہے کہ زمین پر آ گرے تاکہ محمد (ص) کے نعلینِ پاک کو بوسہ دے۔

ادبی نتیجہ:

یہ حکایت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ قرآن، صرف ایک مقدس کتاب نہیں بلکہ ایک مکمل عملی زندگی کا خاکہ ہے۔ اور اس خاکے کا سب سے جیتا جاگتا نمونہ خود رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ) کی ذات ہے۔ اگر ہم رسول اللہ (ص) کے اخلاق کو جاننا اور اپنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں قرآن پڑھنا، سمجھنا اور اُس پر عمل کرنا ہوگا — کیونکہ رسولِ اکرم (ص) کی زندگی قرآن کا چلتا پھرتا ترجمہ تھی۔

Maulana Wafa Haider Khan

مولانا وفا حیدر خان

مولانا وفا حیدر خان ایک مدرس، معلم اور عربی لسانیات کے اسکالر ہیں۔ طلباء کو دین اور فقہ کی تدریس کا کئی سالوں کا تجربہ ہے۔ وہ فی الحال مدرسہ (عج)، نوی ممبئی میں مدرس (ٹیچنگ اسٹاف) ہیں