حقیقی سرمایہ اور دولت

مدینہ کا ایک روشن چراغ، ربیعہ الرأی، علم و فقہ کا ایسا ستارہ تھا جس نے کئی اصحابِ رسول کے فیض سے علم کا نور حاصل کیا۔ نہ صرف علم و فہم میں ممتاز تھا بلکہ اس کی گفتار میں ایسا اثر تھا کہ سننے والے اس کی باتوں میں کھو جاتے۔ کم عمری ہی میں مسجد نبوی میں درس و تدریس کا حلقہ قائم کیا اور شاگردوں کی کثیر تعداد اس کے گرد جمع رہتی، جن میں امام مالک جیسے جلیل القدر عالم بھی شامل تھے۔
ربیعہ کی زندگی کا ایک پہلو نہایت قابلِ غور اور درس آموز ہے۔ اس کے والد، عبدالرحمٰن فروخ، جب اسلامی لشکر کے ہمراہ خراسان روانہ ہوئے، اُس وقت ان کی بیوی امید سے تھیں۔ جاتے وقت انہوں نے تیس ہزار دینار اپنی بیوی کے سپرد کیے اور کہا: "میرے واپس آنے پر یہ رقم مجھے لوٹا دینا۔"
فروخ کا قیام خراسان میں طویل ہوگیا، پورے ستائیس سال۔ اس عرصے میں ان کا بیٹا، ربیعہ، نہ صرف پروان چڑھا بلکہ علمی میدان میں شہرت کی بلندیوں کو جا پہنچا۔ اس کی والدہ نے شوہر کی غیر موجودگی میں پوری جانفشانی، حکمت اور محبت سے اس کی تربیت کی، یہاں تک کہ وہ نوجوانی ہی میں اکابر علماء کی صف میں کھڑا ہو گیا۔
جب فروخ مدینہ واپس آیا، وہ بیٹے کو پہچانتا نہ تھا۔ جیسے ہی اس نے گھر کا دروازہ کھولا، ایک تنومند نوجوان نے آ کر روک دیا اور کہا: "اے اجنبی! میرے گھر میں کیوں داخل ہو رہے ہو؟" اس پر فروخ بپھر گیا: "یہ میرا گھر ہے، تُو کون ہوتا ہے؟" دونوں کے درمیان جھگڑا شدت اختیار کر گیا۔ ہمسائے جمع ہو گئے، بات قاضی تک پہنچانے کی نوبت آئی۔ یہاں تک کہ گھر کی اندرونی طرف سے ایک عورت باہر نکلی، شوہر کو پہچانا اور چیخ کر کہا: "لوگو! یہ میرے شوہر ہیں، اور یہ نوجوان ہمارا بیٹا ہے!"
یہ سننا تھا کہ باپ بیٹا گلے مل کر دیر تک روتے رہے۔ جذبات کا طوفان تھما، تو فروخ نے بیوی سے کہا: "اب وہ تیس ہزار دینار واپس کرو جو میں تمہارے سپرد کر گیا تھا۔" بیوی نے مسکرا کر کہا: "اس امانت کو میں نے ضائع نہیں کیا، بلکہ تمہارے اس بیٹے کی تعلیم و تربیت پر خرچ کر دیا تاکہ وہ آج اس مقام پر پہنچے۔"
فروخ مسجد گیا، وہاں ایک عظیم علمی مجلس دیکھی۔ نوجوان استاد درس دے رہا تھا، لوگ ہمہ تن گوش تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہی نوجوان، اس کا اپنا بیٹا ربیعہ ہے۔ گھر واپس آیا، بیوی سے کہا: "آج میں نے اپنے بیٹے کو علم و وقار کی اس بلند چوٹی پر دیکھا جس کا میں تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔"
بیوی نے مسکرا کر سوال کیا: "اب بتائیے، وہ تیس ہزار دینار قیمتی تھے یا یہ فرزندِ علم و فضل؟" فروخ نے دل کی گہرائی سے جواب دیا: "خدا کی قسم! یہ بیٹا ان تمام دولتوں سے کہیں بڑھ کر قیمتی ہے۔" بیوی بولی: "تو جان لو، وہی دولت میں نے اسی راہ میں خرچ کی ہے۔"
فروخ نے اشکبار آنکھوں سے کہا: "تم نے واقعی ایک بے مثال سرمایہ کاری کی ہے، اور دولت کو اس کے سب سے اعلی مصرف پر خرچ کیا۔"
اس واقعے سے درج ذیل چند اہم اخلاقی اور تربیتی پیغامات حاصل ہوتے ہیں
علم سب سے قیمتی سرمایہ ہے:
فروخ کے تیس ہزار دینار ایک دنیاوی سرمایہ تھے، لیکن اس کی بیوی نے وہ سرمایہ علم و تربیت پر خرچ کر کے ایسا فرزند دنیا کو دیا جو خود ایک "مدرسہ" بن گیا۔ یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ علم میں لگایا گیا مال، کبھی ضائع نہیں جاتا بلکہ نسلوں کو سنوار دیتا ہے۔
ماں کی تربیت کا اثر:
ربیعہ کی علمی عظمت کا اصل راز اس کی ماں کی دوراندیشی، قربانی اور تربیت میں پوشیدہ ہے۔ ماں اگر بصیرت اور اخلاص کے ساتھ بچے کی پرورش کرے تو وہ نسلوں کے لیے روشنی کا چراغ بن جاتا ہے۔
نیت خالص ہو تو اللہ مدد کرتا ہے:
ربیعہ کی والدہ نے خلوصِ نیت سے بیٹے کی تربیت کی، اور اللہ نے اس کا ایسا صلہ دیا کہ پوری امت اس کے علم سے فیض یاب ہوئی۔
والدین کا ادب اور غلط فہمی کا ازالہ:
ربیعہ نے ناواقفیت میں باپ سے سختی سے پیش آیا، لیکن جیسے ہی حقیقت واضح ہوئی، وہ گلے لگ کر رونے لگا۔ اس سے ہمیں سیکھنا چاہیے کہ نادانستہ غلطیوں پر ندامت اور اصلاح کا جذبہ ہونا ضروری ہے۔
دنیاوی دولت فانی، علم اور کردار باقی:
فروخ نے خود اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ اس کا بیٹا، جسے اس نے ستائیس سال بعد پایا، اس کے مال و دولت سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ علم اور کردار وہ دولتیں ہیں جو وقت کے ساتھ بڑھتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں۔
بیوی کا اعتماد اور شوہر کا اعتراف:
بیوی نے اعتماد سے مال کو بہترین مصرف میں لگایا اور شوہر نے اس کو سراہا۔ یہ واقعہ ازدواجی تعلقات میں اعتماد، مشورہ اور قدر شناسی کی بہترین مثال ہے۔

مولانا وفا حیدر خان
مولانا وفا حیدر خان ایک مدرس، معلم اور عربی لسانیات کے اسکالر ہیں۔ طلباء کو دین اور فقہ کی تدریس کا کئی سالوں کا تجربہ ہے۔ وہ فی الحال مدرسہ (عج)، نوی ممبئی میں مدرس (ٹیچنگ اسٹاف) ہیں
