خدمت خلق

خدمتِ خلق کا مطلب ہے بغیر ذاتی مفاد کے انسانیت کی بھلائی کرنا۔
یہ ایک ایسا عظیم عمل ہے کہ بہت سے مذاہب اس کو انجام دیتے ہیں، مگر اسلام میں اس عمل کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
قرآنِ مجید اور احادیثِ معصومین علیہم السلام میں دوسروں کی مدد کرنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، بیماروں کی تیمارداری اور محتاجوں کی ضرورتیں پوری کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
البتہ خدمتِ خلق صرف مالی امداد کا نام نہیں ہے، بلکہ کسی کی طرف مسکرا کر دیکھنا، کسی کی مشکل میں کام آ جانا، بے سہاروں کو سہارا دینا، کسی کا قرض معاف کر دینا، کسی کی غلطی کو معاف کرکے اسے گلے لگا لینا — اس طرح کے سارے کام جو بندوں سے متعلق ہیں، خدمتِ خلق میں شامل ہیں۔
ایک اچھا مسلمان، ایک اچھا شہری وہی ہے جو دوسروں کے کام آئے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو یا کسی کو کسی سے کوئی بیر بھی ہو، تب بھی اُس کی مدد کرنا خدمتِ خلق کا بہترین طریقہ ہے۔
جیسے پیغمبرِ اسلام ﷺ کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ کہیں تشریف لے جا رہے تھے، آپ نے دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت لکڑیوں کا گٹھا اپنے سر پر لے کر جا رہی ہے۔
آپ نے آگے بڑھ کر اس سے وہ گٹھا لے لیا اور فرمایا: "میں آپ کے گھر تک اسے پہنچا دوں گا۔"
وہ بہت خوش ہوئی اور آپ سے باتیں کرتی ہوئی ساتھ میں چلنے لگی، مگر وہ راستے بھر پیغمبرِ اسلام ﷺ کی برائی کرتی رہی۔
آپ بہت تحمل سے اپنی برائی سنتے رہے۔ جب آپ اس کے گھر پر وہ لکڑیوں کا بوجھ رکھ کر واپس پلٹے، تو اُس کے لڑکے نے ماں سے پوچھا کہ: "آپ اس آدمی کو جانتی ہیں جس نے آپ کی مدد کی ہے؟"
اس نے کہا: "میں پہچانتی تو نہیں، مگر بہت نیک انسان ہے۔ اس نے میری بہت مدد کی ہے۔"
لڑکے نے کہا: "جس کو آپ بہت بڑا دشمن سمجھتی ہیں، وہی آدمی ہے!"
یہ سن کر وہ عورت فوراً آپ ﷺ کے پاس آئی اور بولی: "راستے بھر میں آپ کو برا بھلا کہتی رہی، مگر آپ نے برا ماننا تو دور، اتنی محبت سے میرے ساتھ پیش آئے اور میری مدد کی!"
آپ ﷺ نے فرمایا: "ہمارا دین ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے کہ جو لائقِ مدد ہو، اُس کی مدد کی جائے۔"
یہ سن کر اُس نے کہا: "واقعی آپ کا دین اس قابل ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔" اور پھر وہ مسلمان ہو گئی۔
اس واقعے سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ خدمتِ خلق اصل میں خدمتِ دین ہے۔
خصوصاً آج کل کے دور میں، جبکہ خودغرضی عام ہو چکی ہے، خدمتِ خلق کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
اگر ہر فرد اپنے دائرہ کار میں دوسروں کی مدد کرنے لگے تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔
جناب ذوالقرنین کا واقعہ خدمتِ خلق کی بہترین مثال ہے۔
جناب ذوالقرنین "سد سکندری" بنا کر جب واپس آ رہے تھے تو ان کا گزر ایک بستی سے ہوا۔
آپ نے اس بستی میں کچھ عجیب چیزیں دیکھیں۔ آپ نے دیکھا کہ اس بستی کے لوگوں نے اپنے گھر کے دروازے پر اپنے بزرگوں کی قبریں بنا رکھی ہیں۔
انہوں نے وہاں کے لوگوں سے جب وجہ پوچھی تو لوگوں نے بتایا:
"ہم نے اس وجہ سے اپنے دروازے پر قبریں بنوائی ہیں تاکہ جب بھی گھر سے باہر نکلیں یا گھر میں داخل ہوں تو ہمیں یاد رہے کہ ہمیں بھی ایک دن یہیں آنا ہے۔"
دوسری بات انہوں نے یہ دیکھی کہ لوگ شام کو جلد سوتے ہیں اور صبح کو طلوعِ آفتاب سے پہلے اٹھ جاتے ہیں۔
جب اس کی وجہ پوچھی تو بتایا:
"اس لیے ہم جلدی سوتے ہیں تاکہ صبح جلدی اٹھ سکیں، اس طرح ہم صحت مند رہتے ہیں۔"
تیسری بات جو انہوں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ ان کی بستی میں کوئی غریب نہیں تھا۔
جب اس کی وجہ پوچھی تو کہا:
"ہم جو کچھ روزی حاصل کرتے ہیں، اپنی ضرورت بھر رکھ کر اُسے لوگوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ اس لیے کسی کو اپنی غریبی کا احساس نہیں ہوتا۔"
اور چوتھی جو خاص بات دیکھی وہ یہ تھی کہ ان کے یہاں کوئی کوٹ، کچہری یا قاضی نہیں تھا۔
انہیں بہت حیرت ہوئی۔ جب وجہ دریافت کی تو بتایا:
"ہمارے یہاں کوئی تنازعہ نہیں ہوتا، اور اگر کبھی کسی سے کچھ بحث و مباحثہ ہو بھی جائے تو ہم لوگ آپس میں مل کر حل کر لیتے ہیں۔"
یہ دیکھ کر جناب ذوالقرنین نے ان لوگوں کی بہت تعریف کی۔
واقعی اگر ہر فرد اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھے تو کسی بندے کی حق تلفی نہیں ہو سکتی، اور ایک بہترین سماج و معاشرہ تیار ہو سکتا ہے۔
الحمدللہ! اللہ نے ہمیں ایسا دین عطا کیا ہے جو بندوں کو صرف اپنے رب سے نہیں جوڑتا، بلکہ بندوں کو بندوں سے بھی جوڑ کر رکھنا چاہتا ہے، یعنی بندگانِ خدا کو بندوں کی خدمت کا درس دیتا ہے۔
اسلام صرف عبادتوں کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں خدمتِ خلق کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔
پیغمبرِ اسلام ﷺ نے فرمایا:
"لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے۔"
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
"تمہارے درمیان دو قسم کے لوگ ہیں: یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانیت میں تمہارے برابر ہیں۔"
مطلب صاف واضح ہے کہ خدمتِ خلق صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہر انسان مستحق ہے۔
امام معصوم علیہ السلام فرماتے ہیں:
"لوگوں سے اچھا برتاؤ اور حسنِ اخلاق سے پیش آنا نصف ایمان ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"اگر تمہارا ہمسایہ یہودی یا عیسائی یا کافر بھی ہو، تو اس کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پیش آؤ جاری ہے
خدمتِ خلق کا جذبہ ہر کسی میں نہیں ہوتا۔ اس کے لیے اپنے اخلاق کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر ہمارا اخلاق بہتر ہوگا تو ہم دوسری قوموں میں بھی اپنا ایک مقام بنا سکتے ہیں۔
حالانکہ اس دور میں اخلاق نام کی چیز برائے نام ہی رہ گئی ہے۔ جب ہم اپنے گھر میں، اپنے عزیزوں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش نہیں آتے، خاص طور پر خونی رشتہ داروں کے ساتھ اخلاق کا مظاہرہ نہیں کر پاتے — سگے بھائی، بہن اور ماں باپ کے ساتھ جس محبت و اخلاق کی ضرورت ہے، اسے پوری نہیں کر پاتے۔
جبکہ ان رشتوں کو بچانے کے لیے اگر اپنا کچھ نقصان بھی ہو، تو اس نقصان کو برداشت کرتے ہوئے ان رشتوں کو بچانا ضروری ہوتا ہے، تاکہ گھر میں امن و امان اور رشتہ داروں میں محبت و الفت باقی رہے۔ کیونکہ انہی نیکیوں کے سبب خداوندِ عالم رزق میں برکت عطا کرتا ہے۔
آج ہر انسان طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اسلام تو عام انسانوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے، مگر عام انسان سے حسنِ سلوک تو بہت دور کی بات ہے — لوگ اپنے ہی گھر میں، اپنے ہی بھائی، بھتیجوں اور عزیزوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے کتراتے ہیں۔ والدین کی خدمت بچوں کے لیے ایک بوجھ سا محسوس ہوتی ہے، اسی لیے تو رزق سے برکت ختم ہو گئی ہے، اور ہر انسان حیران و پریشان نظر آتا ہے۔
حالانکہ اسلام نے خدمتِ خلق کو اسی لیے ضروری قرار دیا کہ لوگ مسلمانوں کے اخلاق سے متاثر ہو کر دائرۂ اسلام میں داخل ہوں، جیسا کہ مولاۓ کائنات کے اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
ایک مرتبہ مولاۓ کائنات کہیں تشریف لے جا رہے تھے، اثنائے راہ میں ایک یہودی سے ملاقات ہو گئی۔ کچھ دور تک دونوں ساتھ چلتے رہے۔ ایک منزل پر پہنچنے کے بعد دونوں کا راستہ جدا تھا۔ چنانچہ یہودی اپنے راستے کی طرف مڑ گیا اور آگے بڑھنے لگا۔ کچھ دور جانے کے بعد یہودی نے دیکھا کہ ان کا ہمسفر بھی اس کے ساتھ آ رہا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ یہودی رک گیا اور کہا کہ: "آپ شاید اپنا راستہ بھول گئے، آپ کا راستہ تو پیچھے چھوٹ گیا۔"
آپؑ نے فرمایا: "میں راستہ نہیں بھولا ہوں بلکہ میں اپنے دین پر عمل کر رہا ہوں۔"
اس نے کہا: "وہ کیسے؟"
آپؑ نے فرمایا: "ہمارا دین یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی تمھارا ہمسفر ہو تو اس کا حق تم پر یہ ہے کہ جب وہ تم سے جدا ہو تو تھوڑی دور تک اس کا ساتھ دو، لہٰذا کچھ دور تک میں تمھارا ساتھ دے رہا ہوں۔"
یہ سن کر وہ یہودی کہنے لگا: "آپ کا دین واقعی بہت اچھا ہے۔"
اور وہ یہودی مولا کی باتوں سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے دینِ اسلام قبول کر لیا۔
اسی طرح ہمارے امام ہشتم (علیہ السلام) بندگانِ خدا کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ جب آپ دستر خوان پر کھانا کھانے بیٹھتے، تو ایک خالی برتن رکھ لیتے تھے اور اس میں اچھے کھانوں میں سے تھوڑا تھوڑا نکال کر الگ رکھتے تھے۔ اس کے بعد غلام کو حکم دیتے کہ اسے غرباء میں تقسیم کر دو۔ اور فرماتے کہ خدا کو معلوم ہے کہ ہر شخص غلام آزاد نہیں کر سکتا، لہٰذا اس طرح کھانا کھلا کر غرباء کو جنت میں جانے کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔
غفاری نامی ایک شخص نے کسی سے کچھ مقدار میں قرض لیا اور وہ وقتِ معینہ پر ادا نہ کر سکا۔ وہ شخص بار بار اپنے قرض کا مطالبہ کر کے اسے پریشان کر رہا تھا۔ غفاری نے سوچا کہ امام رضا علیہ السلام سے اس سلسلے میں مدد طلب کروں گا۔ چنانچہ اس نے آپؑ سے ملاقات کی اور اپنی پریشانی بیان کی۔ آپؑ نے اس کی بات سنی، اسے اپنے گھر لے گئے۔ وہ شخص روزے سے تھا۔
آپؑ نے اس کو پہلے افطار کرایا اور فرمایا: "یہ تکیہ اٹھاؤ اور جو کچھ اس کے نیچے ہے، اسے اٹھا لو۔"
اس نے وہ پوٹلی اٹھا لی اور اپنے گھر چلا گیا۔ جب اس نے وہ پوٹلی کھولی تو اس میں کچھ دینار اور ایک پرچہ نکلا۔ اس پرچہ کو پڑھا تو اس میں لکھا تھا:
"۲۸ دینار اس قرضدار کو دے دو اور جو بچے، اسے تم اپنی ضرورت کے لیے رکھ لو۔"
جب اس نے شمار کیا تو ۴۸ دینار موجود تھے۔
اہلِ بیت علیہم السلام نے ہمیں صرف حکم ہی نہیں دیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کر کے بتایا کہ اگر اللہ کی رضا و خوشنودی چاہتے ہو، تو اس کے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا رہو، تو یقیناً کامیاب ہو سکتے ہو۔
خداوندِ عالم ہم سب کو اہلِ بیت علیہم السلام کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ
Photo by A. C. on Unsplash

Zakerah Kazma Abbas
Khahar Kazma Abbas is a Zakera from Mumbai, India. She has been extremely active in educating masses about the virtues of the Ahlal Bayt AS. She is an associate educator of Tanzeem ul Makatib, Lucknow
