خود جنونی – ایک روحانی بیماری

Zakerah Nadera Zaidi
16 November 2025
Share:
خود جنونی – ایک روحانی بیماری

آج میں ایک اہم روحانی اور اخلاقی موضوع پر اپنی تحریر شیئر کر رہی ہوں، جس کا تعلق ہماری اندرونی زندگی اور معاشرتی ذمہ داریوں سے ہے۔

یہ آرٹیکل ائمہ اطہار، خاص طور پر حضرت علی علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں 'خود جنونی' (Self-obsession) کے نقصانات پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ مرض ہماری عقل اور دل دونوں کو کیسے تباہ کر سکتا ہے. اسے ضرور پڑھیں اور اپنے پیاروں کے ساتھ شیئر کریں تاکہ ہم 'میں' کی قید سے نکل کر 'ہم' کی دنیا میں قدم رکھ سکیں۔


نادره زیدی کے قلم سے


"خود جنونی" (Self-obsession) درحقیقت ایک ایسی روحانی بیماری ہے جو انسان کو اس کی اپنی ذات کے قید خانے میں محصور کر دیتی ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جہاں فرد اپنی ذات، اپنے ذاتی مفادات، اور اپنے وجود کے علاوہ ہر شے سے غافل ہو جاتا ہے۔ یہ مرض ہمیں اخلاقی بلندیوں سے گرا کر نفس پرستی کی گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے۔


اسلامی تعلیمات، بالخصوص ائمہ اطہار علیہم السلام کے ارشادات، ہمیں اس روحانی عیب سے خبردار کرتے ہیں اور اسے تباہ کن قرار دیتے ہیں۔ یہ خود پسندی، غرور اور انانیت کی جڑ ہے۔


حضرت علی علیہ السلام کی تعلیمات میں خود جنونی کا علاج

امیر المؤمنین حضرت علی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ انسان کی نجات دوسروں کی فلاح اور دنیا و آخرت کی بہتری سے جڑی ہے۔ آپ نے فرمایا:

"بڑا فخر و غرور کرنے والا اپنی نگاہوں میں ہی بڑا ہوتا ہے، دوسروں کی نظروں میں نہیں۔"


جو شخص صرف اپنی ذات کے محور پر گھومتا ہے، وہ اپنی ہی تعریفوں کا اسیر ہو کر دوسروں کے عیوب کو دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کے نزدیک، بہترین عمل وہ ہے جو انسان کو اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانے اور دوسروں کے لیے فائدہ مند ہونے کی ترغیب دے۔

خود جنونی کے روحانی نقصانات:

عقل پر پردہ: جب انسان خود جنونی کا شکار ہوتا ہے تو اس کی عقل پر تعصب اور انانیت کا پردہ پڑ جاتا ہے۔ وہ صرف وہی سنتا ہے جو اس کے نفس کو اچھا لگے، اور حقیقت کی آواز کو نظر انداز کر دیتا ہے۔


معاشرتی انحطاط (Social Degradation):

ائمہ کی تعلیم ہے کہ مؤمن وہ ہے جو دوسروں کا بوجھ بانٹے اور ان کی خیر خواہی کرے۔ خود جنونی معاشرتی تعلقات کو کمزور کرتی ہے کیونکہ ایک خود جنونی شخص کسی دوسرے کے دکھ یا خوشی میں شریک نہیں ہو پاتا۔ وہ صرف 'میں' کی دنیا میں جیتا ہے۔


اللہ سے دوری:

حضرت علی علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ

"اُس پرندے کی طرح بنو جو پانی تو پیتا ہے مگر اس میں غوطہ نہیں لگاتا۔"


یعنی دنیا اور اس کی زیب و زینت میں ایسا مگن نہ ہو جاؤ کہ خود کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھو۔ حقیقی کامیابی اپنی ذات کی نفی اور اللہ کی رضا میں ہے۔ خود جنونی انسان کو اللہ کی عظیم تر تخلیق کے بجائے صرف اپنے محدود وجود کا غلام بنا دیتی ہے۔


علاج: نفیِ ذات اور خدمتِ خلق

خود جنونی کا علاج نفیِ ذات اور خدمتِ خلق میں مضمر ہے۔ ائمہ معصومین کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی عظمت کو پس پشت ڈال کر فقیروں اور محتاجوں کی خدمت کرتے تھے۔

حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین* کا عمل ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسان کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ رکھتا ہو، اسے اپنا غرور توڑ کر دوسروں کی دستگیری کرنی چاہیے۔

امام زین العابدین راتوں کو چھپ کر غریبوں کے گھروں تک کھانا پہنچاتے تھے، یہ عمل خود پسندی کے بالکل برعکس ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ اپنی ذات کو شہرت یا تعریف کے لیے استعمال کرنے کے بجائے، اسے دوسروں کی بھلائی کے لیے خاموشی سے استعمال کیا جائے۔

نتیجہ:

خود جنونی ایک ایسا دلدل ہے جو انسان کو اپنی ہی تعریف کی پستی میں دھکیل دیتا ہے۔ ائمہ اطہار کی سیرت اور ان کا کلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ زندگی کی اصل خوبصورتی اور کامیابی 'میں' کو 'ہم' میں بدلنے میں ہے۔ اپنے نفس کی پرستش چھوڑ کر مخلوق کی خدمت اور خالق کی رضا میں لگ جانا ہی ایک مؤمن کا شیوہ ہونا چاہیے۔


Image by Mohamed Hassan from Pixabay
Zakerah Nadera Zaidi

Zakerah Nadera Zaidi

Khwahar Nadera Zaidi is a social activist, motivational speaker, and counselor, especially active for the welfare of the new generation. She is always enthusiastic about conveying the message of the Ahlul Bayt to the people.