ماں کا غصہ یا رب کی رضا؟

نقل ہے کہ دہخدا کی والدہ نہایت ہی غصیلی اور جھگڑالو مزاج رکھتی تھیں۔
یہ کیفیت ایسی تھی کہ دہخدا نے ساری زندگی شادی نہیں کی۔
ماں کی خدمت اور خوشنودی کے لیے وہ تنہا زندگی گزارتے رہے — بن بیاہے، بن اولاد۔
آدھی رات کا امتحان
ایک رات، آدھی رات کے وقت، دہخدا گہری نیند میں تھے کہ ماں نے آواز دی:
"پانی لا دو!"
دہخدا فوراً اٹھے، پانی لائے، مگر بدقسمتی سے پانی نیم گرم تھا۔
ماں کا جلال یا بیٹے کا کمال؟
ماں نے پانی کا گلاس دہخدا کے سر پر دے مارا اور غصے سے بولیں:
"یہ پانی گرم کیوں ہے؟!"
دہخدا کا سر پھٹ گیا، خون بہنے لگا۔
وہ خاموشی سے ایک کونے میں چلے گئے اور زار زار روتے رہے۔
صبر کا شکوہ، مگر شکایت نہیں
دہخدا نے روتے ہوئے اللہ سے فریاد کی:
"اے پروردگار! میں نے کیا گناہ کیا ہے؟
ماں کی رضا کے لیے اپنی زندگی کی خوشیاں چھوڑ دیں، نسل ختم کر دی، تنہائی قبول کی۔
یہی ہے اس قربانی کا صلہ؟
الٰہی! میرا صبر مت چھین لینا، میری شکیبائی کو قائم رکھنا!"
خوابِ نوری، انعامِ صبر
اسی رات، خواب میں انہوں نے دیکھا کہ سبز نور ان کے زخمی سر سے نکل کر پورے جسم میں پھیل گیا۔
ایک نورانی آواز سنائی دی:
"اُٹھو! تم نے ماں کی خدمت میں صبر کیا، ہم نے تمہیں علم کا خزانہ عطا کر دیا!"
بے نسل، مگر تاریخ کا باپ!
دہخدا نے اگلے ہی دن سے ایران کی تاریخ کا عظیم علمی منصوبہ شروع کیا:
لغتنامہ دہخدا
امثال و حکم
وہ کتابیں تیار کیں جو آج بھی علمی دنیا کا سرمایہ ہیں۔
دہخدا اگرچہ بے اولاد رہے، مگر ان کا نام نسلوں تک زندہ و جاوید ہو گیا۔
سبق:
ماں کی خدمت کبھی ضائع نہیں جاتی۔
صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔
بعض رشتے آزمائش بن کر آتے ہیں، مگر ان سے جیت کر انسان قربِ الٰہی پا لیتا ہے۔
اللہ کے نزدیک اخلاص اور خدمت کی قیمت بہت بلند ہے۔
Image by freepik

مولانا وفا حیدر خان
مولانا وفا حیدر خان ایک مدرس، معلم اور عربی لسانیات کے اسکالر ہیں۔ طلباء کو دین اور فقہ کی تدریس کا کئی سالوں کا تجربہ ہے۔ وہ فی الحال مدرسہ (عج)، نوی ممبئی میں مدرس (ٹیچنگ اسٹاف) ہیں
