وہ چاند کہہ کے گیا تھا کہ آج نکلے گا۔۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
السلام و علیک یا بقیتہ اللہ فی ارضہ ۔
زمانہ غیبت کبریٰ میں ہمیں انتظار کا حکم دیا گیا ہے اور یہ انتظار در اصل ہماری آزمایش ہے اسلیے کہ اگر واقعی ہم اپنے امام زمانہ علیہ السّلام کے منتظر ہیں تو ہماری تیاری کیا ہے اور ہمارا یقین کس منزل پر ہے ۔جناب موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر اللہ سے مناجات کے لیے گیے تو انھوں نے اپنی قوم سے تیس راتوں کا وعدہ کیا تھا کہ میں تیس دنوں کے بعد تمھارے پاس واپس آجاؤں گا مگر خداوندعالم نے دس دن کا اور اضافہ کر دیا تو بنی اسراءیل نے کہا کہ موسیٰ ع نے اپنا وعدہ توڑ دیا.اس کے بعد وہ اتنا بدظن ہوئے کہ انھوں نے گوسالہ پرستی یعنی بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔
سوال یہ ہے کہ جب تیس دن کا جناب موسیٰ نے وعدہ کیا تھا, حکم خداسے تو پھر آخر دس دن کی مدت غیبت اور بڑھا کیوں دی جسکی وجہ سے انکی قوم جناب موسیٰ کو وعدہ خلاف سمجھ کر موسیٰ ع کے دین سے پھر گیے اور گوسالہ پرستی شروع کر دی?
معصومین علیہم السلام نےاس کی وجہ یہ بتائی کہ در اصل یہ قوم موسیٰ علیہ السلام کی آزمایش تھی کہ کتنے لوگ موسیٰ ع کی باتوں پر قایم رہتے ہیں اور کتنے لوگ انکے دین سے نکل جاتے ہیں یعنی یہ آزمائشی اسی لیے تھی کہ مومن و منافق الگ ہو جاییں انکی پہچان ہو جائے۔
مگر خداوندعالم نے امت محمدیہ پر یہ احسان کیا ہے کہ اس نے امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا کوئی وقت کوئی تاریخ یا سن مقرر نہیں کیا ہے اسی لیے کہ اگر ظہور امام ع کا کوئی وقت یا سال و مہینہ مقرر کر دیتا اور اسکی کچھ مصلحت کی بنا پر اس تاریخ میں ظہور نہ ہوتا تو انتظار امام زمانہ کرنے والے کا ایمان خطرہ میں پڑ جاتا۔ جسکی وجہ سے کچھ لوگ دین سے نکل سکتے تھے۔ امام ع کے ظہور کا کوئی وقت اسی لیے مقرر نہیں کیا گیا۔
بہر حال، ہم اپنے امام زمانہ علیہ السّلام کا انتظار تو کر رہے ہیں مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بغیر معرفت امام کے یہ انتظار ہمارے کام آسکتا ہے؟
اس کے لیے دو مثالیں پیش کی جارہی ہیں کہ بغیر معرفت امام ع کے کس طرح سے یہ عمل ہمارا بیکار ہو سکتا ہے اور صرف عمل ہی بیکار نہی ہو سکتا بلکہ انتظار کرنے والا ہی امام ع کا دشمن ہو سکتا ہے۔ تاریخ اسلام میں اسکی مثالیں موجود ہیں۔
جناب عیسیٰ علیہ السلام کے بعد پانچ سو سال تک کوی خدا کا نمایندہ نہیں آیا البتہ ایسا نہیں تھا کہ کوئی ولی خدا نہ رہا ہو کوئی نہ کوئی خدا کا ولی ضرور رہا ہے مگر اللہ کا منتخب کیا ہوا کوئی رسول یا امام نہیں رہا مگر ہر نبیوں نے اپنی امت کو اپنے بعد آنے والے رسول کی خبر ضرور دی تھی کہ ایک نبی آنیگا جو آخری رسول ہوگا۔ لہٰذا، سب سے زیادہ اس آخری رسول کا جس قوم نے انتظار کیا وہ جناب موسیٰ کی قوم قوم یہود تھی۔
یہودیوں نے اپنی کتاب توریت میں پڑھا تھا اور اپنے نبی سے بھی سنا تھا کہ مکہ میں آخری رسول آےگا اور اسکی وہ تمام نشانیاں انکی کتاب میں موجود تھیں جو انھوں نے اپنے نبی جناب موسیٰ سے سنی تھیں لہٰذا وہ اس آخری رسول کا انتظار کرتے رہے اور اتنی شدت سے اس آنے والے رسول کا انتظار تھا کہ انھوں نے صدیوں سے اپنی جایداد اس آنے والے رسول کے لیے وقف کردی تھیں۔
ہم جو خیبر کا واقعہ سنتے ہیں یہ خیبر کی جگہ بھی ان کے بزرگوں نے اسی رسول کے لیے وقف کر دی تھیں انکے یہاں کوئی اولاد بہادر اور طاقتور پیدا ہوتی تھی تو اس اولاد کو رسول کے لیے وقف کر دیتے تھے کہ یہ اس رسول کے کام آےگی غرض کہ جتنا ممکن تھا وہ اس رسول کے انتظار میں تیاریاں کرتے رہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اپنا شہر چھوڑ کر مدینہ میں آکر آباد ہو گیے تھے کہ جب وہ آیںگے تو ہم ان پر ایمان لاینگے اور انکا ساتھ دینگے۔
مگر جب وہ رسول ص آگیے تو وہی یہودی جو اتنی مدت سے انتظار کررہے تھے وہی رسول ص کی دشمن ہو گیے۔ جن اولادوں کو طاقتور سمجھکر اسکی حفاظت کرتے رہے کہ وہ رسول کا ساتھ دینگے وہی اولادیں رسول خدا کے مقابلے پر آگیں جیسے مرحب و عنتر وغیرہ ۔۔۔۔۔
جاری ہے۔

Zakerah Kazma Abbas
Khahar Kazma Abbas is a Zakera from Mumbai, India. She has been extremely active in educating masses about the virtues of the Ahlal Bayt AS. She is an associate educator of Tanzeem ul Makatib, Lucknow



