حصہ دوم: غدیر کی اہمیت قرآنِ کریم کی روشنی میں

غدیر کی اہمیت قرآنِ کریم کی روشنی میں
مگر ایک سوال جو بار بار ذہن میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ آخر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس سے خطرہ تھا؟ کیونکہ یہ اعلان کسی کافر، مشرک، یہودی یا عیسائی کے درمیان نہیں کرنا تھا، بلکہ ان مسلمانوں کے درمیان کرنا تھا جو حضور کے ساتھ فریضۂ حج ادا کر کے آ رہے تھے۔ سب مسلمان تھے، صحابہ تھے، حضور سے محبت کرنے والے تھے۔ اس کے باوجود پیغمبر اسلام وہ پیغام پہنچانے میں گھبرا رہے تھے جس کا حکم خدا دے رہا تھا۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ حضور کو غیر قوموں سے خطرہ نہیں تھا بلکہ اپنے ہی آدمیوں سے خطرہ تھا۔ حضور کو اس بات کا ڈر تھا کہ یہ لوگ میری تکذیب کریں گے اور رجعتِ قہقری اختیار کر لیں گے۔ خطرہ اتنا زیادہ تھا کہ خدا کو اپنے حبیب سے وعدہ کرنا پڑا کہ:
"آپ کو جو حکم دیا ہے اس کا اعلان کیجیے، ہم آپ کو لوگوں کے شر سے بچائیں گے۔"
کیونکہ یہ اعلان نماز، روزہ، حج یا زکوٰۃ کا نہیں تھا بلکہ مولائے کائنات کی ولایت و خلافت کا اعلان تھا۔ یعنی 18 ذی الحج کو غدیر خم کے میدان میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے شجاع، بہادر اور آزمائے ہوئے غازی کا تعارف کرانا تھا۔ حضور کو یہ بتانا تھا کہ اگر اسلام کا مددگار، ذمہ دار اور قرآن کا ترجمان کوئی ہے تو یہ علیؑ ہیں۔
یہ وہی علیؑ ہیں جنہوں نے خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر، کافروں اور مشرکوں کے بیچ میں قرآنِ مجید کی وہ آیات سنائیں جو ان کے خلاف تھیں۔ حالانکہ پیغمبرِ اسلام نے سورہ توبہ کی آیات سنانے کے لیے پہلے جناب ابوبکر کو روانہ کیا تھا تاکہ وہ خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر سورہ توبہ کی آیات پڑھ کر سنائیں۔ مگر کچھ دور جانے کے بعد جبرئیلِ امین آئے اور انھوں نے کہا کہ:
"خدا کہہ رہا ہے کہ اس کام کو آپ انجام دیں یا وہ جو آپ سے ہو۔"
تو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولائے کائنات کو روانہ کیا۔ مولائے کائنات، پیغمبرِ اسلام کے ناقے پر سوار ہو کر جناب ابوبکر کے پاس پہنچے اور ان سے وہ آیات لے کر خانہ کعبہ کے پاس گئے اور کافروں کے سامنے ان آیات کی تلاوت کی۔
اب صاحبانِ فکر و نظر غور فرما کر فیصلہ کریں کہ جس شخص کو حضور کی زندگی میں، کافروں کے درمیان چند آیات کی تلاوت کا حق نہیں ملا، وہ بعدِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جانشینِ رسول ہونے کا حق دار کیسے ہو گیا؟
اسی لیے پیغمبرِ اسلام نے اپنی زندگی ہی میں اس بات کو واضح کر دیا تھا کہ اگر اسلام کا کوئی محافظ ہو سکتا ہے تو وہی ہو سکتا ہے جس میں مخالفانِ اسلام سے مقابلہ کرنے کی ہمت و جرات ہو۔
غدیر خم کے میدان میں ولایتِ علی ابن ابی طالبؑ کا اعلان کرنا تھا۔ اسی لیے حضور گھبرا رہے تھے کہ لوگ اس اعلان کو سن کر میری تکذیب کریں گے۔ تو خدا نے اپنے حبیب سے وعدہ کیا کہ:
"آپ ہمارے حکم پر عمل کریں، ہم آپ کو لوگوں کے شر سے بچائیں گے۔"
یہ مسئلہ اتنا اہم اور ضروری تھا کہ جس کے اعلان کا حکم خدا دے رہا تھا۔ حتیٰ کہ میدانِ محشر میں جب لوگ حساب و کتاب سے فارغ ہو کر جنت کی طرف بھاگتے ہوئے جا رہے ہوں گے تو ایک آواز آئے گی:
"انھیں روکو، ان سے کچھ پوچھنا ہے۔"
لوگ کہیں گے:
"ہم تو حساب و کتاب سے فارغ ہو چکے ہیں۔ ہم نے نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ کا حساب دے دیا ہے، اب اور کیا باقی رہ گیا؟"
تو آواز آئے گی:
"تم سے ولایتِ علیؑ کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔"
یعنی سارے سوالات کے بعد آخر میں جو سوال ہو گا، اسی کا صحیح جواب دینے پر جنت و جہنم کا فیصلہ ہوگا۔
اسی لیے جب حضور نے غدیر خم کے میدان میں "من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ" کا اعلان کر دیا تو خداوندِ عالم نے بھی اپنے دین کے مکمل ہونے کی سند عطا فرمائی:
"الیوم أکملت لکم دینکم وأتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الإسلام دیناً"
(سورہ مائدہ، آیت 3)
یعنی:
"آج کے دن میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا، اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی، اور تمھارے لیے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا۔"
تمام علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیۂ مبارکہ مولا علیؑ کی ولایت و خلافت کے اعلان کے بعد نازل ہوئی۔ یہ واقعہ اتنا اہم تھا کہ اس اعلان کے بعد ہی دین کی تکمیل اور نعمت کے تمام ہونے کی سند ملی۔
البتہ علمائے اہل سنت میں کچھ ایسے افراد ہیں جو اس بات کو ماننے سے انکار کرتے ہیں، جبکہ ان کے پاس انکار کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ مگر اہلِ تشیع کے نزدیک حضرت علیؑ کی ولایت و خلافت کا اعلان صرف سیاسی اعلان نہیں تھا، بلکہ ایک الٰہی منصوبے کا حصہ تھا۔ جس طرح ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو اللہ نے منتخب کر کے بھیجا تاکہ اپنے دین کو لوگوں تک پہنچائیں، اسی طرح ختمِ نبوت کے بعد امامت و ولایت کا سلسلہ خدا نے جاری رکھا۔ اور اس کا اعلان غدیر خم کے میدان میں اپنے آخری رسولؐ کے ذریعے کروا کر یہ بتا دیا کہ الٰہی عہدہ کا حقدار وہی ہو گا جسے خدا منتخب کرے گا، اور وہ معصوم عن الخطا ہو گا، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم ہیں۔
اسی لیے جب خداوندِ عالم نے آیتِ تطہیر (سورہ احزاب، آیت 33) میں اہلِ بیتؑ کی طہارت کا اعلان کیا تو رسول خدا کے ساتھ حضرت علیؑ کی بھی طہارت کی ضمانت دی۔ اس سے مولائے کائنات کی عظمت اور منزلت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
واقعۂ غدیر، قرآن، سنت، احادیث اور تاریخِ اسلام میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ حوالہ جات اہلِ سنت کی کتابوں سے بھی پیش کیے جا رہے ہیں، جو اس واقعہ کی صداقت اور اہمیت کو واضح کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
"من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ، اللھم وال من والاہ، و عاد من عاداہ"
یعنی:
"جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی بھی مولا ہیں۔ اے اللہ! جو علی سے دوستی رکھے، تو بھی اسے دوست رکھ، اور جو علی سے دشمنی رکھے، تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔"
حوالہ جات:
- مسند احمد بن حنبل، جلد 4، صفحہ 281
- سنن ترمذی، حدیث نمبر 3713
- النسائی، کتاب الخصائص امیر المؤمنین
اور بھی کئی حوالہ جات اہلِ سنت کی کتابوں سے مل سکتے ہیں، بشرطیکہ انصاف کی نظر سے تحقیق کی جائے۔ اسلام کو آنکھ بند کر کے نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ کھلی آنکھوں اور صاف و شفاف دل و دماغ کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرنا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے۔
خداوندِ عالم تمام مسلمانوں کو راہِ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ الٰہی آمین۔
و آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔
image by printerest

ذاکرہ کاظمہ عباس
خواہر کاظمہ عباس ممبئی سے تعلق رکھنے والی ذاکرہ ہیں اور اہل بیت ع کے فضائل و مناقب سے متعلق عوام الناس کو آگاہ کرنے کے لیے انتہائی سرگرم رہتی ہیں۔ علاوہ از ایں تنظیم المکاتب، لکھنؤ کی ایک ایسوسی ایٹ معلم ہیں۔

