جو جیتا وہی سکندر

دور حاضر میں ہونےوالے واقعات مجھے سوچنے پر مجبور کر رہے تھے کی آخر کیسے ایک کمزور ترین معیشت اور یکہ و تنہا جمہوریہ نے دنیا کی طاقتور ترین حکومت کو نظروں سے نظریں ملا تے ہوئے للکارا اور اس بات کی تنبیہ کی کے اگر جسارت کی تو تیری خیر نہ ہوگی۔ اس ملک نے فرعون وقت کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کی غلط پنگا لے لیا۔
پھر یاد آیا کے یہ خودی کا معجزہ ہے اور یوں علامہ کے اشعار بھی یاد آئے، جو واقعی ہر دور میں ہر ذہنِ منور کو متنور کرتے رہے ہیں، اشعار ملاحظہ فرمائیں
غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے، ہے وہی زیبا
رہے ہیں، اور ہیں۔۔! فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا
کچھ یوں ہوا، کی میری نظر رییان ہولی ڈے کی کتاب "آبسٹیکل از دا وے" (Obstacle is the way - Ryan Holiday) پر پڑی اور جیسے ذہن میں ایک ہندی محاورا گونج اٹٹھا۔ "آپدا میں اوسر" (आपदा में अवसर), میں نے یہ کتاب اٹھائی اور اسے پڑھنے لگا۔
مصنف نے بہترین انداز سے مشکلات کو حل کرنے اور نہ صرف حل کرنے بالکہ مشکلات کو اپنے فائدے میں تبدیل کرنے کا ہنر بیان کیا ہے۔ مارکس اوریلس(Marcus Aurelius)، روزویلٹ (Roosevelt)، اور ایپکٹیٹس (Epictetus) جیسے ذہین لوگوں کے تناظر سے باتیں بیان کیں اور استقامت (Perseverance) کے پہلو بھی بیان کئے۔ یہ اور بات ہیکہ, مصنف نے صرف انھیں ہستیوں کی حیات کا مطالعہ کیا ہے اور انھیں کے بارے میں علم رکھتا ہے، مگر چونکہ علم مومن کا خزانہ ہے اور وہ جہاں سے ملے حاصل کر لینے کا حکم ہے۔
اس موضوع پر جناب کلیم حیدر شرر نے ایک شعر سنایا تھا، یہ کہتے ہوئے کے "بیٹا! یہ یاد رکھو۔"
لو جان بیچ کر بھی جو علم و ہنر ملے
جیسے ملے, جہاں سے ملے, جس قدر ملے
لب لبابِ کتاب یہی ہیکہ مشکلات ایک دریچہ ہیں کی دیکھیں آپ مشکل کے رو بہ رو خود کو کمزور محسوس کرتے ہیں یا مشکل آپ کے سامنے خود بہ خود راہبر بن جاتی ہے؟
ملاحظہ ہو کی مصنف کے مطابق جب آپ مشکل میں ہوں تو ان پہلوؤں پر غور فرمائیے۔ وہ یہ کہ مشکل کے متعلق آپ کا نظریہ ہو کی مشکلآپ کیلئے صرف ایک مفروضہ سوال ہے جسے آپ کیلئے امتحان کے طور پر پیش گیا ہے۔ یہ جاننے کیلیئے کی اگر ایسے حالات ہوں تو کیا کیا جاسکتا ہے؟
اس مرحلے کیلئے، جب مشکل آن پڑے تو آپ کو اپنے اوسان اور جذبات پر مکمل اختیار حاصل کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر ریان نے روبین کارٹر ہوریکین کا واقعہ بیان کیا۔۔۔
اسکی کہانی ایسی ہیکہ... اسے ایک قتل کے الزام میں پھنسایا گیا جس کے نتیجے میں اسے جیل ہو گئی۔ اس مکے باز نے حالات سے سمجھوتا کرنے کے بجائے جیل میں رہ کر اپنا مقدمہ خود لڑ کر بری ہونے کا فیصلہ کیا۔
ہوریکین نے جیل میں داخل ہونے سے قبل جیلر سے جو جملے کہے وہ کچھ اسطرح ہیں۔
"میں جانتا ہوں کہ میرے ساتھ جو نا انصافی ہوئی جسکے نتیجہ میں مجھے اس جیل میں آنا پڑا اس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں۔ پھر بھی میں یہاں رہوں گا جب تک میں یہاں سے باہر نہیں جا پاؤں۔ لیکن کسی حال میں بھی مجھے ایک قیدی نہ سمجھنا کیوں کی میں کسی حال میں کمزور نہیں رہوں گا۔"
اسکے بعد ہوریکین نے اپنا وقت قانون پڑھنے اور عدلیہ کی کاروائیوں کے علم حاصل کرنے میں صرف کیا۔ یہاں تک کے اسنے اپنا مقدمہ خود لڑ کر خود کو بری کروالیا۔ دلچسپ بات یہ ہیکہ دوران مدت قید و بند اسنے قیدیوں کو جو رعایتیں دی جاتی ہیں، ان سے بھی استفادہ نہیں کیا۔ کیوں کی ا سکا ارادہ قطعی تھا کی میں قید میں ضرور ہوں، مگر میں حالات کا قیدی نہیں ہوں۔
"آج کا مسلمان کیا سوچتا ہے؟ آپ کیا سوچتے ہیں؟"
اسی طرح کے دیگر پہلوؤں کو بہترین سلیقے، مختصر واقعات اور اقوالِ حکیمانہ کے ذیل میں ریان ہولی ڈے نے کتاب میں ذکر کیا ہے۔
آئیے ذرا دو مثالیں حالات حاضرہ کے ضمن میں بھی دیکھ لیں۔ ایک ہے ایران بنام سوپر پاور جبکہ دوسری مثال اسی ملک کی معاشی راجدھانی کے مئیر کے الیکشن ہیں۔
دونوں کے سامنے بہت بڑی مشکلیں تھیں۔ دونوں کے مخالفین کے پاس تھی بہت بڑی طاقت اور بہت سارا پیسہ، میڈیا، کارکن اور پروپگینڈا پھر ان مخالفین نے انکے مذہب کو بہانہ بناکر عام لوگوں کو انکے خلاف اور اپنے حمایت میں مبذول خاطر کرنے کی کوششیں کیں۔
مگر ان دونوں نے اپنے مخالفوں کے انھیں حربوں کے استعمال کو اپنے لئے آلات رسوخ بنایا اور حالات کو سازگار کر لیا۔ حالات سے گھبرائے نہیں اور اپنے مخالفوں سے غافل بھی نہ ہوئے۔ ان کے ساتھ ہر قم، قدم بہ قدم، چلتے رہے، انکی ہر لغزش کا بغور مشاہدہ کرتے ہوئے انکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں کے ہتھیار سے بسمل (زخمی) کردیا۔
جب وہ کامیاب ہو گئے تو زمانہ حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا۔
حالات تو ایسے نہیں تھے کہ ان کمزور لوگوں کا کچھ بھلا ہونا ممکن ہوسکے، مگر کچھ تو خاص بات ھے اس 80 سال کے بزرگ اور اس 34 سالہ جوان میں۔
اب وہ کہتے ہیں نا "جو جیتا وہی سکندر", آپ بھی سکندر ہیں صرف خودی کو پہچانئے ۔
Image by Pete Linforth from Pixabay

Sayed Minhal
"Sayed Minhal, is a Software Engineer with an MNC from Mumbai, India. He is an ardent follower and supporter of the Ahlal Bayt AS. Minhal has contributed to multiple technical endeavors in spreading the message of Ahlal Bayt AS"






